نہ تھا اگر تو شریکِ محفل

200

23 جنوری جمعرات شام اسلامی جمعیت طلبہ لاہور نے سائنس کالج وحدت روڈ میں ایک خوبصورت مجلس کا اہتمام کیا۔ لاہور میں جمعیت میں زندگی گزارنے والے بہت سارے ناظمین و ارکان جمع تھے۔ ہزار ایک سے تو زیادہ ہوں گے۔ ماضی کی خوبصورت یادیں، دلچسپ واقعات، کٹھن مراحل، عزیمت و شہادت سے جڑی تصویریں، جس جس کے پاس جو کچھ تھا، وہ انہیں سنا اور دکھا رہا تھا۔ رات قدرے ٹھنڈی مگر خوش گوار تھی اور جمعیت کے فدائین اسے اپنے نعروں اور ترانوں سے مسلسل گرما رہے تھے۔ ماضی کی یادیں تلخ بھی ہوں تب بھی ہمیشہ خوش گوار لگتی ہیں اور اگر وہ جیلوں کے تذکروں اور شہادتوں کے خون سے دھو کر مزین کی گئی ہوں تو اور بھی بھلی لگتی ہیں۔

جمعیت کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے بہت زیادہ جڑی ہوئی ہے۔ دسمبر 1947ء میں وجود میں آنے والی طلبہ کی یہ تنظیم نظریاتی و تنظیمی طور پر اتنی مضبوط بنیاد پر کھڑی ہے کہ ماہ و سال کی گردش اس کے چہرے کو دھندلانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے مقابلے میں کتنی ہی طلبہ تنظیمیں ابھریں اور پھر خاک و خاشاک کی نظر ہوگئیں۔ جمعیت کی نرسری سے اب تک ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان و نونہال پرورش پاکر باہر نکلے اور عملی زندگی میں قابل ِ قدر خدمات دینے میں زندگیاں گزار دیں۔ ان میں سے بیش تر اندرون اور بیرون ملک تحریک اسلامی کا صرف حصہ ہی نہیں اس کے روح رواں بھی بنے۔ اس لیے یہ سارے لوگ بجا طور پر جمعیت کو اپنی ماں جیسا درجہ دیتے ہیں۔ جمعیت کا دامن شہادتوں اور قیادتوں کے بے مثال ناموں سے جُڑا اور بھرا پڑا ہے۔ اس کا ماٹو کہ ’’اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق‘‘ زندگیوں کو مزین کرنا ہے۔ اسی پس منظر میں کچھ مقررین نے خوبیوں، کامیابیوں اور برکتوں کے عمدہ تذکرے کے ساتھ ساتھ کچھ کمزور پہلوؤں کی نشان دہی بھی کی۔ اس بات کا بھی تذکرہ آیا کہ تحقیق اور ’’علم کی جدتوں‘‘ کو اسلامی تصورات میں ڈھالنے اور اس کے لیے ’’انسان سازی‘‘ کے عمل میں ہم سے کچھ کوتاہیاں بھی ہوئیں۔

ہم یونیوسٹیوں میں معاشیات، عمرانیات اور نفسیات کے، بڑی تعداد میں، ایسے ماہرین پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے جو علم کے دھاروں کا رُخ اسلامی تمدن کی طرف موڑ سکے ہوں۔ ہم ایسے نامور اور کامیاب وکلا اور جج تیار نہ کر پائے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو منوانے کی صلاحیت کا اظہار کر پائے ہوں۔ ابلاغ کے میدان میں ہم ایسے نامور صحافی، قلم کار اور مدبر نہ بنا پائے جو جدید ذہن کے لیے مقناطیس بن کر انہیں اپنے اندر سما پائے ہوں۔

مولانا مودودیؒ کے قلم اور ذہن ِ رسا نے جن چنیدہ لوگوں کو اس قافلے کا حصہ بنایا تھا وہ یا تو اپنے ربّ کے پاس پہنچ چکے ہیں یا عنقریب پہنچنے والے ہیں۔ ہم کم از کم پچھلی چار دہائیوں میں ان اہم کاموں پر کوئی منظم (Systematic) کام نہیں کر پائے۔ جمعیت نے ہم نوجوانوں کی جو ذہن سازی کی ہے۔ اللہ کا شکر ہے یہ ذہن کسی طور پر بھی وقت کے طاغوتی نظام سے مفاہمت نہیں کر پاتا، اگلا مرحلہ اس شیطانی نظام کی مذمت کا ہے۔ جمعیت کی تیار کردہ نسل پوری قوت سے اس عمل میں مصروف ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ مزاحمت کا ہے۔ پوری علمی، پیشہ ورانہ مہارت اور اخلاقی تربیت کے بغیر کوئی کامیاب جد و جہد ممکن ہی نہیں۔ ہمیں کسی طور پر مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹنا، مگر مزاحمت کے جدید ہتھیاروں کے حصول اور اس کی ٹریننگ کے بغیر کوئی مؤثر مزاحمت ممکن ہی کیسے ہو سکتی ہے۔ اب سابقین ِ جمعیت کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہے کہ وہ موجودہ جمعیت کے ساتھ بیٹھ کر اس طویل مدتی کوتاہی کا سد ِ باب کرنے میں کب، کیا اور کیسے کام کر سکتے ہیں۔ پروگرام کے اس جذباتی اور پُر کشش سیشن کو کئی گھنٹے گزر گئے اور پتا ہی نہیں چلا۔ پھر اعلان ہوا کہ اب پروگرام کا اختتام قریب ہے۔ اختتام پر موجودہ ناظم اعلیٰ حسن بلال ہاشمی اور سابق ناظم اعلیٰ اور موجودہ متحرک امیر جماعت حافظ نعیم الرحمان نے ولولہ انگیز اور پُر مغز نکات پر گفتگو فرمائی۔ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے تحریک کو کیرئیر بنانے کی مؤثر اور مدلل اپیل کی۔ اس سہانے ماحول میں اتنی پُر لطف و پُر عزم تقریب میں اگر آپ نہیں پہنچ پائے تو بس علامہ اقبال کی زبان میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ:

اگر نہ تھا تو شریکِ محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ