پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان بڑھتی قربتیں جنوبی ایشیا میں ایک نئی صف بندی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ خطے میں بھارت کے غلبے کو چیلنج کرتے ہوئے یہ تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ پورے خطے میں جغرافیائی اور سیاسی حرکیات کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر 1971 کے سانحے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ان تعلقات میں مزید دراڑیں پڑیں، کیونکہ ان کے دور میں بنگلا دیش کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ رہا۔ لیکن حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی اور ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے، جہاں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے مختلف پہلوؤں پر کام جاری ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے عسکری وفود کے تبادلوں، دفاعی تعاون کے فروغ، اور تجارتی معاہدوں نے نہ صرف باہمی اعتماد کو بڑھایا ہے بلکہ ایک دوسرے کے لیے نئی معاشی اور سیاسی راہیں بھی ہموار کی ہیں۔ بنگلا دیشی فوج کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے، پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کی قیادت میں، پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران وفد نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، اور پاک فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل ظہیر احمد بابر سندھو سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں باہمی عسکری تعاون اور علاقائی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال اور جے ایف 17 تھنڈر طیاروں میں دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ بنگلا دیش اپنی دفاعی ترجیحات میں پاکستان کو اہم پارٹنر کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس پیش رفت پر بھارتی میڈیا کی تشویش قابل ِ فہم ہے، کیونکہ بھارت نے ہمیشہ بنگلا دیش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش بھارت سے دور اور پاکستان کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، انڈین میڈیا میں کچھ خبروں کے دوران یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی فوج کی جانب سے بنگلا دیشی فوج کو تربیت فراہم کیے جانے کے امکانات زیر غور ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس دعوے کی کوئی باضابطہ تصدیق یا تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو بڑھانے کے لیے کئی معاہدے کیے ہیں۔ خاص طور پر، بنگلا دیش نے پاکستان سے چاول اور دیگر اشیاء کی درآمد کے معاہدے کیے ہیں، جو دونوں معیشتوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔ پاکستان نے بنگلا دیشی مصنوعات کے لیے اپنی منڈی کھولنے کی بھی پیشکش کی ہے، جو بنگلا دیش کے لیے ایک اہم موقع ہے، اگر دونوں ممالک اپنی تجارتی پالیسیوں کو مزید ہم آہنگ کریں اور مشترکہ منصوبے شروع کریں، تو دونوں کی معیشتوں کو بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی بندرگاہیں بنگلا دیش کی تجارت کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کے لیے ایک منفعت بخش بن سکتی ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش مل کر جنوبی ایشیا میں ایک نیا توازن قائم کر سکتے ہیں، جہاں بھارت کے بجائے علاقائی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ سارک (SAARC) جیسے پلیٹ فارمز پر دونوں ممالک کا تعاون اس خطے میں امکانات اور نئے دروازے کھول سکتا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تعلقات میں بہتری کی امید ہے، لیکن چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ماضی کے تاریخی تنازعات اور عوامی سطح پر موجود غلط فہمیاں ان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے ممکنہ دباؤ اور سازشیں بھی ایک چیلنج ہیں، جن کا دونوں ممالک کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تعلقات بھارت کے لیے ایک چیلنج ہیں، کیونکہ بنگلا دیش اب بھارت کے بجائے پاکستان سے اپنے دفاعی اور معاشی تعاون کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بنگلا دیش اور میانمر کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران، بنگلا دیش کو اپنے دفاع کے لیے نئے اتحادیوں کی تلاش ہے، اور پاکستان اس میں ایک قدرتی پارٹنر کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔یہ تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ خطے میں امن، ترقی، اور استحکام کے لیے بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اور مستقبل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، دونوں ممالک ایک مشترکہ ویژن کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اگر یہ تعاون جاری رہا تو یہ نہ صرف پاکستان اور بنگلا دیش کے عوام کے لیے خوشحالی لائے گا بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔