امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدے پر براجمان ہوتے ہی تیزی سے اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا ہے۔ قلم دان سنبھالتے ہی سب سے پہلے انہوں نے پیرس معاہدے سے انخلا پر دستخط کیے۔ انہوں نے گزشتہ دور صدارت میں بھی ایسا ہی کیا تھا ،تاہم سابق صدر بائیڈن نے اسے کالعدم کردیا تھا۔ پیرس معاہدہ کئی ماہ تک جاری مذاکرات کے بعد 2015ء میں طے پایا تھا جس کی 200 ممالک نے توثیق کی تھی۔ معاہدے کے تحت عالمی برادری نے عالمی حدت کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی پر اتفاق کیا تھا تاکہ بین الاقوامی درجہ حرارت میں کمی لائے جاسکے۔صدر ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے پہلے روز جن اقدامات کا اعلان کیا ہے، ان میں سب سے اہم عالمی ادارہ صحت سے انخلا ہے۔ دیگر تنازعات سے قطع ان دوموضوعات میں ٹرمپ کی دل چسپی جاننے کے لیے ان کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
پیرس معاہدہ 2015ء:
پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ ایک عالمی معاہدہ ہے جو کہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی (یو این ایف سی سی سی )کے تحت ہوا۔ یہ معاہدہ دسمبر 2015ء میں فرانس میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کوپ 21کے دوران منظور کیا گیا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سیلسیس سے کم رکھنے کی کوشش کرنا اور اگر ممکن ہو تو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنا ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچا جا سکے۔پیرس معاہدہ 1997ء کے کیوٹو پروٹوکول کے بعد موسمیاتی تبدیلی کے خلاف سب سے اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔ کیوٹو پروٹوکول نے صنعتی ممالک کو اخراج میں کمی کرنے کے قانونی پابندیاں عائد کی تھیں، جب کہ پیرس معاہدہ تمام ممالککو شامل کرتا ہے،جن میں ، ترقی پزیر ممالک بھی شریک ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد تمام ممالک کو انفرادی طور پر اور مشترکہ طور پر مضرگیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کی طرف مائل کرنا ہے تاکہ دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے تناسب کو کم کیا جا سکے۔معاہدے تحت ہر ملک قومی سطح پر ایک نگراں تعینات کرنے کا پابند ہے جو تعین کرتا ہے کہ حکومت کاربن کے اخراج میں کتنی کمی کرے گی۔ یہ معاہدہ کسی ملک کو مضر گیسیوں کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے قانونی طور پر پابند نہیں کرتا، بلکہ یہ ایک شفاف طریقہ کار کے ذریعے ممالک کو اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک طریقہ کار کے تحت ممالک کو اپنی کارکردگی کی رپورٹ دینے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے معاہدہ کے اہداف کی جانب پیشرفت کی نگرانی کی جاتی ہے۔
2020ء تک ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پزیر ممالک کو ہر سال 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت سازی کے اقدامات بھی معاہدے کا حصہ ہیں تاکہ ترقی پزیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں مدد مل سکے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے میں شریک ممالک کے اہداف عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ چند ممالک میں گیسوں کے اخراج میں کمی کی رفتار سست ہے، اور عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ جاری ہے، جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ کا سرمایہ دارانہ ذہن آخر اس ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کے لیے بے تاب کیوں ہے؟ ٹرمپ کا موقف ہے کہ پیرس معاہدہ امریکی مفادات کے خلاف ہے جس میں امریکی معیشت کو بے جا طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔معاہدے کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امریکا کو جہاں کروڑوں ڈالر ترقی پزیر ممالک کو ادا کرنے پڑیں گے وہاں ملک میں مضر گیسوں کے خلاف اقدامات کے لیے بھی خطیر رقم درکار ہوگی۔ واضح رہے کہ امریکا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے ۔
عالمی ادارئہ صحت ( ڈبلیو ایچ او)
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ ٹرمپ کی چپقلش کا آغاز 2019ء میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دنوں میں ہوا تھا۔یہ مرض چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کووڈ کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے تھے جن میں کہا گیا کہ وائرس چین میں جانور فروخت کرنے کی مارکیٹ سے نکلا۔ ایک اور نظریے کہا گیا تھا اس کا ماخذ ووہان میں قائم وائرسوں کا تحقیقی مرکز تھا، جہاں سے یہ وائرس لیک ہو گیا۔ عالمی ادارہ صحت نے کووڈ کے پھیلاؤ پر ووہان میں تحقیقات کی تھی ، جس سے ٹرمپ مطمئن نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کووڈ اور صحت کے کئی دوسرے بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔ پیر کے روز حلف برداری کے فوراً بعد ابتدائی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کے موقع پر انہوں نے کہا کہ عالمی ادارئہ صحت اور دیگر عالمی ادارے امریکا کے ساتھ جو برتاؤ کرتے رہے ہیں، اب ایسا نہیں ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صحت کا یہ عالمی ادارہ رکن ممالک کے نامناسب سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے آزادانہ کام کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ ادارہ امریکا سے غیر منصفانہ طور پر بھاری فنڈنگ حاصل کرتا ہے جس کا چین جیسے دوسرے بڑے ممالک کی رقوم سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ امریکا اس لیے ڈبلیو ایچ او کو چھوڑ رہا ہے کیوں کہ ادارہ چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی وبااور صحت کے دیگر کئی عالمی بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام رہا اور رکن ممالک کے نامناسب سیاسی اثر و رسوخ سے خود کو باہر نہیں نکال سکا ہے۔ اس دوسرے فیصلے میں بھی ٹرمپ کی سرمایہ دارانہ ذہنیت کا عنصر غالب رہا اور وہ عالمی ادارے کو فنڈنگ کرنے کے سخت خلاف دکھائی دیے۔
دوسری جانب ڈبلیو ایچ او نے اپنے بیان میں ادارے کے لیے سب سے زیادہ فنڈز فراہم کرنے والے ملک کے اقدام پر افسوس کا اظہار کیا ۔ جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کے ترجمان طارق جساراوک نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ امریکا اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا اور ہمیں توقع ہے کہ ان سے امریکیوں اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے تعمیری بات ہو گی۔ 2023 ء کے ڈبلیو ایچ او کے بجٹ میں امریکی فنڈنگ کا حصہ 18 فی صد تھا،جب کہ 2024 ء اور 2025 ء کے لیے دو سالہ بجٹ کا تخمینہ 6 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین اور دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی دست برداری سے اس عالمی تنظیم کے پروگرام خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ خاص طور پر تپ دق پر کنٹرول کا پروگرام، جو دنیا کی سب سے بڑی ہلاکت خیز متعددی بیماری ہے۔ واشنگٹن میں قائم جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں عالمی صحت کے پروفیسر اور عالمی صحت کے قانون پر ڈبلیو ایچ او مرکز کے ڈائریکٹر لارنس گاسٹن کہتے ہیں کہ یہ عالمی صحت کے لیے ایک سیاہ دن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے کسی نئی عالمی وبا کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
امریکا کے بعد عالمی ادارئہ صحت کو سب سے زیادہ عطیات دینے میں دوسرا نمبر بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کا ہے۔ یہ فاؤنڈیشن زیادہ تر پولیو کے خاتمے کے پروگرام میں فنڈز دیتی ہے۔فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو مارک مارک سوزمن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فاؤنڈیشن ڈبلیو ایچ او کو کمزور کرنے کی بجائے اس کی مضبوطی کے لیے کام کرتی رہے گی۔ عالمی ادارہ صحت کی فنڈنگ میں ایک اور بڑا ملک جرمنی ہے جو ڈبلیو ایچ او کے بجٹ کا تقریباً 3 فی صد حصہ فراہم کرتا ہے۔ جرمنی کے وزیر صحت نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ برلن اس اقدام پر ٹرمپ سے بات کرے گا۔ چین کی وزارت خارجہ نے بھی اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے کردار کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ بیجنگ اپنی ذمے داریاں پوری کرنے اور صحت پر بین الاقوامی تعاون بڑھانے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھے گا۔