غزل

48

چراغ خون سے روشن کیا بْجھے گا نہیں
مْصیبتوں سے مہاجر کبھی ڈرے گا نہیں
جو زخمِ دل ہے کسی تار سے سِلے گا نہیں
بہا جو سیلِ رواں آنکھ سے رْکے گا نہیں
سیاہ رنگ پسندیدہ ہے تو پہنا کریں
بھلا یہ کس نے کہا آپ پر جچے گا نہیں
ہمارے آپ کے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا
حسد کی جس پہ نظر ہو وہ گھر بسے گا نہیں
ستارے توڑ کے لانے کی آرزو ہے عبث
زمین چھوڑنا مت آسماں ملے گا نہیں
نہیں ہے آپ کے بس میں تو چھوڑ دیجے نا
جناب ! آپ سے سسٹم یہ اب چلے گا نہیں
یہ ایک حل ہے فقط مْشکلیں بھگانے کا
دْعا سے کس نے کہا حادثہ ٹلے گا نہیں
ابھی سمے ہے ردا ترک دوستی کر لیں
ہمیں یقین ہے عہدِ وفا نبھے گا نہیں