دنیا بھر میں ادبی میلوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کے ذریعے مصنف اور قاری کے مابین شعوری طور پر فاصلہ کم کیا گیا۔ کسی زمانے میں قارئین کتابیں پڑھنے کے بعد تصوراتی طور پر طے کرتے تھے کہ متعلقہ کتاب کو لکھنے والے مصنف کی شخصیت کیسی ہوگی، وہ عام زندگی میں کیسا دکھائی دیتا ہوگا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ عالمی ادب میں کتاب اور قاری کے درمیان ادبی فیسٹیولز کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، جہاں دونوں ایک دوسرے سے براہ راست مخاطب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ادبی میلوں کی تاریخ کو کھنگالا جائے، تو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی اس طرح کی سرگرمیوں کے آثار ملتے ہیں، مگر وہ نقش کافی دھندلے ہیں، البتہ 70ء اور 80ء کی دہائی تک آتے آتے پاکستانی ادب نے مغربی رنگ ڈھنگ اپنانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ادبی میلوں کی روایت بھی ہمارے ہاں عود آئی۔ اردو زبان اور پاکستانی ادب کے نام پر ادبی میلے اور کانفرنسیں سجائی جانے لگیں۔ نئی صدی کے ابتدائی برسوں میں اس طرح کی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اب عہدِ حاضر میں یہ اپنے عروج پر ہیں۔
کراچی کے ادبی میلے
عہدِ حاضر میں شروع ہونے والے ادبی میلوں کی ابتدا ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ سے ہوتی ہے، جس کو بھارت کے مقبول ادبی میلے ’جے پور لٹریچر فیسٹیول‘ سے متاثر ہوکر پاکستان میں شروع کیا گیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی کی ڈائریکٹر امینہ سید نے جب اس بھارتی ادبی میلے میں شرکت کی تو انہیں خیال آیا کہ پاکستان میں بھی اس طرح کا ادبی میلہ منعقد کیا جانا چاہیے، اس کے لیے انہوں نے معروف ادیب آصف فرخی کے ساتھ مل کر اس میلے کی بنیاد رکھی، جس کو ابتدا میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔
2009ء میں شروع ہونے والا ادبی میلہ 8 برسوں سے جاری ہے۔ ابتدائی برسوں میں پسند کیا جانے والا ادبی میلہ اب ایک مخصوص طبقے کا میلہ بنتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اس کی ایک اور وجہ ادبی میلے میں یکسانیت، غیر ادبی موضوعات کی بھرمار ہونا بھی ہے۔
کراچی لٹریچر فیسٹول
کراچی لٹریچر فیسٹیول کی بھرپور کامیابی کے بعد اسلام آباد میں بھی اسی طرز کا ادبی میلہ شروع کیا گیا۔ 5 برس سے یہ میلہ کامیابی سے وہاں منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھی کراچی کے ادبی میلے کے خطوط پر ہی کام کیا جاتا ہے، جس میں پاکستان اور دنیا بھر کے ممالک سے ادیب شرکت کرتے ہیں، زیادہ تعداد انگریزی زبان و ادب میں لکھنے والوں کی ہوتی ہے۔
مختلف ممالک کے سفارت خانوں کی مدد سے منعقدہ اس ادبی میلے میں مختلف ادبی تصنیفات پر اعزازات بھی دیے جاتے ہیں۔ 2017ء میں کراچی لٹریچر فیسٹیول کی ایک کڑی کے طور پر اس کا لندن ایڈیشن بھی متعارف کروایا گیا ہے، جس کی ابتدا ہوئے ابھی ایک برس ہی ہوا ہے، جس میں پاکستانی اور غیر ملکی مصنفین نے شرکت کی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی کے تحت، شہرِ قائد میں مختلف اسکولوں کے اشتراک سے ’ٹیچرز لٹریچر فیسٹیول‘ کا انعقاد بھی کیا گیا، لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا، البتہ ’چلڈرن لٹریچر فیسٹیول‘ متعارف کروایا گیا جس کو خاصی پذیرائی ملی اور وہ اب نہ صرف کراچی، بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں، جیسے سکھر، بہالپور، ملتان، لاہور اور اسلام آباد میں بھی منعقد ہوتا ہے۔ اس ادبی میلے میں بچوں کے لیے ادبی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 8 سال سے بچوں کایہ ادبی میلہ ہورہا ہے۔ اس میلے کی بنیاد ڈالنے والوں میں امینہ سید اور ماہرِ تعلیم بیلارضا جمیل شامل ہیں۔
آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے تحت ہونے والی عالمی اردو کانفرنس رواں برس اپنے 17 سال پورے کرچکی ہے۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مسلسل منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں اردو زبان اور شعر و ادب کے علاوہ پاکستان کی دیگر زبانوں اور ادب کو بھی جگہ دی جانے لگی ہے۔ اس دوران کئی طرح کے اعزازات بھی دیے جاتے ہیں، جن میں سرفہرست لائف اچیومنٹ ایوارڈ ہے، جو 2 سال سے دیا جا رہا ہے، گزشتہ برس یہ ایوارڈ معروف ڈراما نویس، گیت نگار اور مصور انور مقصود کو دیا گیا جبکہ اس سال فلم اور ٹیلی وڑن کے لیے خدمات کے اعتراف میں معروف اداکار اور صدا کار ضیا محی الدین کو دیا گیا۔ زبان و ادب کے علاوہ رقص اور موسیقی کی محفلیں بھی اس کانفرنس کا حصہ ہوتی ہیں۔
11ویں عالمی اردو کانفرنس
18 برسوں سے ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان اور دنیا بھر سے اردو زبان کے دانشور بھی شریک ہوتے ہیں، گزشتہ برس جاپان سے ’پروفیسر ہیروجی کتاؤکا‘ اور اس برس چین سے ایک دانشور ’ٹینگ مینگ شینگ‘ کو مدعو کیا گیا۔ یہ پاکستان کی سب سے بڑی کانفرنس ہے، جس کے بعد دیکھا دیکھی دوسرے شہروں میں بھی کانفرنسوں کی ابتدا ہوئی، لیکن دورِ حاضر کی پہلی جدید کانفرنس کا اعزاز کراچی آرٹس کونسل کے نام ہی ہے۔
رواں برس 9واں سندھ لٹریچر فیسٹیول 28 سے 30 دسمبر تک کراچی کے تاریخی اسکول این جی وے میں ہوگا، جس کا عنوان ’پرانے کراچی سے نئی محبت‘ ہوگا، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ادب، تاریخ، ثقافت، صحافت، سیاست سمیت کئی موضوعات پر بات چیت ہوگی۔اس طرح عوام پنی ادبی پیاس کو بجھانے میں مصروف ہیں۔