کراچی(کامرس رپورٹر)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین ، ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اورٹیکس میں بے پناہ اضافے کے باوجود قرضے لینا پڑرہے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری اخراجات بڑھنے کی رفتارضرورت سے بہت زیادہ ہے۔ سرکاری اخراجات کوکنٹرول نہ کیا گیا توملک پرعائد قرضوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ڈیٹ سروسنگ بھی بڑھتی رہے گی جس کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا اور ضرورت سے زیادہ ٹیکسوں سے معیشت کونقصان اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آرمیں اصلاحات پرکئی دہائیوں سے اربوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں مگر اسکے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سبسڈی اورٹیکس مراعات کے خاتمہ پرعمل درآمد کی رفتاربھی سست روی کا شکارہے۔ سابقہ فاٹا اورپاٹا میں مقامی ضرورت سے کئی سوفیصد زیادہ صنعتی پیداوارہورہی ہے جو ٹیرف ایریا میں اسمگل کردی جاتی ہے جس سے ملکی معیشت کواربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے جبکہ ملک کے دیگرعلاقوں میں ٹیکس ادا کرنے والی صنعتیں بند ہوگئی ہیں جس سے بہت سے لوگ بے روزگارہوگئے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے پاکستان شدید مشکلات کا شکاررہا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے مصنوعی طورپرشرح نموبڑھانے کے لئے معیشت کوبرباد کردیا اورعوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا۔ 2023ء کے وسط میں مہنگائی 38 فیصد کی بلند ترین سطح پرپہنچ گئی تھی جس سے عام آدمی کی قوت خرید ختم اوراس کیلئے دووقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا۔ مارچ 2024ء میں وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت معاشی اصلاحات پرعمل درآمد شروع کیا جس کی وجہ سے دسمبرتک مہنگائی 4.1 فیصد تک کم ہوگئی مگرغریب آدمی کو تا حال وہ ریلیف نہیں ملا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔