ٹرمپ نے حلف لینے سے قبل کہہ دیا تھا کہ ان کی حلف برداری کی تقریب سے قبل حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی ہو جائے گی اور وہ ہو گئی۔ اس میں کس کی جیت اور کون ہارا اس بات کا فیصلہ ابھی باقی اور یہ جنگ عارضی بندی ہے یا مکمل اس بارے میں بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہو گا۔ اس سلسلے میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ’پر امید نہیں‘ کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ برقرار رہے گا۔ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا، ’یہ ہماری جنگ نہیں ہے‘ یہ اسرائیل اور حماس کی جنگ ہے۔ لیکن میں پر اعتماد نہیں ہوں۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حماس کو ’کمزور‘ کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ غزہ ایک تباہ شدہ علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔لیکن کمزرو حماس سے معاہدہ کیسا اس بارے میں صدرِ امریکا خاموش ہیں
ڈونالڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو امریکی صدر کا حلف لیا اور کئی اہم فیصلے کیے، جن میں تیسری جنس کا خاتمہ، حماس اسرائیل جنگ بندی، اور ’’امریکافرسٹ پالیسی ‘‘پر عملدرآمد شامل ہے۔ باقی اعلانات جوٹرمپ نے کیے ہیں وہ سب امریکی پالیسی کا حصہ ہیں۔یہ غلط یا درست لیکن دنیا کے نئے نظام کے سب سے طاقتور کہے جانے والے امریکا میں نئے صدر ڈونلڈٹرمپ نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ ویسے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹس کی امیدوار اور ملک کی اس وقت کی نائب صدر کملا ہیرس کو پانچ نومبر کو ہی ہرا دیا تھا لیکن امریکی عوام جس امیدوار کو منتخب کرتے ہیں وہ 20 جنوری کو باقاعدہ صدر کے عہدہ کا حلف لیتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو حلف لیا اور حلف لینے کے فوراً بعد کئی اعلان بھی کر دیے، جن میں ویسے تو کئی پہلوؤں پر انہوں نے اعلان کیے لیکن سب سے اہم اعلان جو کیا وہ تیسری جنس کا خاتمہ ہے۔ اس اعلان کے بعد امریکا میں اب صرف خواتین اور مرد ہوں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غزہ جنگ کے باعث ٹرمپ انتظامیہ سے ناراض امریکی عوام نے عجلت میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا‘ امریکی انتخابات سے قبل اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت کی خبروں کی وجہ سے ڈیموکریٹس کے خلاف ماحول بنا اس سے بھی کئی طرح کے سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ یعنی اس وقت بھی ٹرمپ کے حق میں امریکی انتظامیہ پوری طرح کام رہی تھی اور اس میں ان کی مدد خود ساختہ مسلم ممالک کر رہے تھے، جس کی وجہ سے امریکامیں ایک ایسے صدر نے حلف لیا ہے جو امریکاکو آگے نہیں پیچھے لے جائے گا۔ امریکا کو دنیا ترقی یافتہ ممالک میں شمار کرتی ہے اور اگر امریکاکو بھی خود کو منوانے کے لیے کام کرنا پڑے تو اس کی اس ترقی پر ہی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈیموکریٹس کی امیدوار اور ملک کی اُس وقت کی نائب صدر کملا ہیرس امریکی عوام کو اس سلسلے میں تسلی بخش جواب دینے یکسر ناکام رہی ہیں ۔ اس کے بعد ٹرمپ کو امریکا کا صدر منتخب کر لیا۔ اس موقع پر ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ !
’کچھ ایسے بدحواس ہوئے آندھیوں سے لوگ
جو پیڑ کھوکھلے تھے انہی سے لپٹ گئے‘
امریکا میں پیسے والے کارپوریٹ گھرانوں کے ذہن میں ٹرمپ کی ایک پالیسی ’امریکا فرسٹ‘ نے جادو کیا لیکن شاید ان کو یہ بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ٹرمپ کی یہ پالیسی ان کا کتنا نقصان کرے گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب امریکی سرمایہ دار سے پوری دنیا سوال کرے گی اور ان کی پوچھ بھی کم ہو جائے گی کیونکہ پوری دنیا متبادل کی تلاش کرنے لگے گی۔
یہ اعلان اس ملک کے صدر کی جانب سے ہوا جو ملک دنیا کا سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں ترقی کی نئی لہر میں تیسری جنس کو ایک جگہ دی گئی ہے اور اس کا کہیں نہ کہیں تعلق عوام کی آزادی سے ہے۔ آج کی دنیا بھر اور امریکا اور یورپی ممالک یہ تسلیم کرتی ہے کہ تیسری جنس کے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں اور ان کو عزت کی نظر سے دیکھنا چاہیے لیکن امریکا جیسے ملک کے صدر کی جانب سے اس اعلان نے امریکا کی ترقی پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جو اعلانات کیے ہیں ان سے یہ بات تو واضح ہے کہ ان کو دوبارہ انتخاب نہیں لڑنا، کیونکہ امریکا میں کوئی بھی شخص دو مرتبہ سے زیادہ صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتا، اس لیے ان کی نظر میں جو بھی صحیح ہے وہ صرف وہی کریں گے اور ان کو جن لوگوں نے دوبارہ صدر بننے میں مدد کی ہے، وہ ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
صدرِ امریکا نے اپنے قلم کی ایک جنبش سے امریکا کو پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبردار، عالمی ادارہ صحت سے الگ کر لیا اور میکسیکو کے ساتھ سرحد پر قومی ایمرجنسی نافذ کر دی۔اس بات میں اب کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی صدارت کی مدت کا ایک بھی لمحہ ضائع نہیں کرنے والے۔وہ اپنی پہچان ایک ایسے صدر کے طور پر بنانا چاہتے ہیں جو تبدیلی کی علامت سمجھا جائے اور انھوں نے اس جانب کام شروع کر دیا ہے۔
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منصب سنبھالتے ہی اپنے وعدے کے مطابق ملک کی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے متعدد ایگزیکٹو حکمناموں پر دستخط کر دیے ہیں۔اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی سرزمین پر پیدائش کے ساتھ ہی امریکی شہریت دینے والے 150 سال پرانے حق کو ختم کرنے کا ایگزیکٹو حکم بھی جاری کیا ہے۔اس سلسلے میں آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حق کو ختم کرنا مشکل ہو گا کیونکہ اس حق کی ضمانت امریکی آئین میں دی گئی ہے۔امریکی سپریم کورٹ ایگزیکٹو حکم نامے کومنسوخ کر دے گی ۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت ہر بحران سے ’طاقت، قوت اور وقار‘ سے نمٹیں گی اور ’تمام قومیتوں، مذاہب، رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے عوام کے لیے ترقی لائیں گے۔ لیکن ٹرمپ کویہ بھی معلوم ہو گا کہ 20 جنوری 2025’ کاامریکاکو اس وقت اپنی شدت پسند اور کرپٹ اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد کے بحران کا سامنا ہے اور یہی سوال اہم ہے ٹرمپ امریکا کو اس چنگل سے کیسے نکالیں گئیں؟