مشترکہ پارلیمانی اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ،10 منٹ میں 4 بلز منظور

111
اسلام آباد: قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان، شبلی فراز و دیگر پیکا ترمیمی بل کے خلاف پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے احتجاج کررہے ہیں

اسلام آباد،پشاور(نمائندہ جسارت، صباح نیوز،آن لائن)پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سوا گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے کے بعد اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوکر رہ گیا، جسے 18 منٹ بعد ہی ملتوی کر دیا گیا۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں کے مشترکہ اجلاس میں درآمدات و برآمدات سمیت 4 ترمیمی بل منظور کرلیے گئے جبکہ نیشنل اسکولز یونیورسٹی سمیت 4 ترمیمی بل موخر کردیے گئے، قانون سازی صرف 10 منٹ میں نمٹائی گئی، اجلاس 18 منٹ ہی چل سکا، جسے 12 فروری
تک ملتوی کر دیا گیا۔اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبول اور قومی ترانے کے بعد باقاعدہ آغاز ہوا۔اپوزیشن اراکین نے نکتہ اعتراض پر بولنے کی اجازت مانگی تو اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر کو مائیک دینے سے انکار کردیا جس پر اپوزیشن ارکین بینچوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کرنے لگ گئے، حزب اختلاف کے ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔پی ٹی آئی اراکین پلے کارڈز کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے اور بھرپور احتجاج کیا۔اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس سے احتجاج کرتے ہوئے پیکا ایکٹ نامنظور کے نعرے لگائے۔اپوزیشن کے شدید احتجاج اور نعرے بازی کے باعث مشترکہ اجلاس کی کارروائی شدید متاثر ہونے لگی، اسپیکر قومی اسمبلی نے ہیڈ فون لگا لیے۔احتجاج کے دوران تجارتی تنظیمات ترمیمی بل 2021، درآمدات و برآمدات ترمیمی بل 2023، قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل 2024 اور نیشنل ایکسیلنس انسٹی ٹیوٹ بل 2024 منظور کیا گیا۔نیشنل اسکولز یونیورسٹی اسلام آباد ایکٹ 2018 میں مزید ترمیم سمیت 4 بل موخر کر دیے گئے۔اسپیکر نے اجلاس 12 فروری تک ملتوی کردیا۔ بلاول زرداری اجلاس ملتوی ہونے کے بعد پارلیمنٹ پہنچے۔اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین کہتا ہے 130 دن سیشن چلے گا مگر یہاں 90 دن چلا ہے ہیں،37 بل منظور ہوئے، مگر کسی بھی قانون کے لیے بحث نہیں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ آج 11 منٹ میں 8 قانون منظور کرلیے گئے، یہ وہ قوانین ہیں جن کو صدر نے مسترد کر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق صدر کے اعتراض کو دیکھا جاتا ہے، اس کے بعد قانون منظور کراتے ہیں، آج تمام بل منظور ہوئے مگر صدر کے ریفرنس کا ذکر نہیں کیا گیا، ایوان چلانے کا یہ طریقہ دنیا یاد رکھے گی۔دریں اثناء سینیٹ کے اجلاس میں گزشتہ روز پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کردیا گیا جس پر پی ٹی آئی نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی، صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آؤٹ کردیا۔ سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سیدال خان ناصر کی صدارت میں شروع ہوا۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل منظور کرانے کے لیے وقفہ سوالات کی کارروائی معطل کردی گئی، وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک سینیٹر شیری رحمن نے پیش کی۔بعدازاں پیکا ایکٹ ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا گیا جسے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔ بل پیش ہوتے ہی صحافیوں نے احتجاجاً سینیٹ سے واک آؤٹ کردیا۔سینیٹ اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان نے شورشرابہ شروع کردیا اور ایوان میں نعرے بازی کی۔ پی ٹی آئی ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور احتجاج کرتے ہوئے ڈیسک بجائیں۔ نعرے لگائے کہ ’’لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی۔بعدازاں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے صحافیوں کے واک آؤٹ اور پی ٹی آئی کے احتجاج پر پیکا ایکٹ ترمیمی بل متعلقہ سینیٹ کمیٹی کے سپرد کردیا اور اجلاس پیر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا۔دریں اثنا صحافیوں کے واک آؤٹ پر پی ٹی آئی اراکین سینیٹ صحافیوں کی حمایت کے لیے پریس گیلری پہنچے۔ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز دیگر اراکین کے ساتھ پریس گیلری آئے ان کے ساتھ سینیٹر عون عباس، سینیٹر ہمایوں خان مہمند، سینیٹر ذیشان خانزادہ، سینیٹر سیف اللہ نیازی، سینیٹر فوزیہ ارشد اور سینیٹر فلک نازچترالی بھی شامل تھے۔پریس گیلری میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ ہم پیکا ایکٹ میں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، حکومت کو ایسے قوانین پاس کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے، یہ قانون صحافیوں اور پی ٹی آئی کو دبانے کے لیے بنایا جارہا ہے، صحافیوں کا نقطہ نظر مختلف ہوسکتا ہے، صحافیوں کے ساتھ پی ٹی آئی یکجہتی کا اظہار کرتی ہے، یہ قانون اصل میں پی ٹی آئی کے خلاف ہے لیکن زد میں صحافی آگئے۔علاہ ازیںخیبرپختونخوا اسمبلی نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی۔ قرارداد پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شفیع اللہ جان نے پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ آزادی صحافت پر قدغن ہے، کے پی اسمبلی آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کو مسترد کرتی ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ صحافی برادری کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایکٹ کی مذمت کرتے ہیں، وفاق پیکا ایکٹ سے غیر جمہوری اور متنازع ترامیم واپس لے۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے گزشتہ روز پیکا ترمیمی بل 2024ء اور ڈیجٹیل نیشن پاکستان بل 2024ء کی منظوری دی تھی اب اسے سینیٹ سے منظور کرایا جانا ہے۔