بحر الکاہل میں سی فوڈ ڈپلومیسی

201

بین الاقوامی تجزیہ نگار بیجنگ کی جانب سے جاپانی سی فوڈ پر پابندی کے خاتمے کے اشاروں کو خصوصی اہمیت دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ رواں ماہ 18جنوری 2025 کو جاپانی وزیر زراعت تاکو ایتو اور چینی وزیر زراعت ہان جن کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی تھی جو خطے میں تعلقات کے نئے باب کا آغاز بتائی جارہی ہے۔ شمال مشرقی ایشیا ریجن کے مخصوص تزویراتی پس منظر میں یہ خبر اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل سمجھی جارہی ہے کہ جاپان کی جانب سے بحر الکاہل میں ٹریٹڈ پانی کا قضیہ چین اور جاپان کے درمیان تاحال حل طلب تھا۔ تفصیلات کے مطابق سنہ2011 میں جاپان کے فوکوشیما دائی ایچی نیوکلیئر پلانٹ پر زلزلے اور سونامی کے باعث ایک حادثے کے نتیجے میں شدید تباہی آئی، جس نے کولنگ سسٹم کو ناکارہ بنا دیا۔ ریڈیوایکٹیو مواد کے اخراج نے قریبی علاقوں کو غیر محفوظ بنا دیا، اور جاپان کو انسانی اور ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

حادثے کے بعد جاپان نے آلودہ پانی کو اسٹیل کے ٹینکوں میں محفوظ کیا اور عالمی ماہرین سے مشورہ کرکے فلٹریشن کا عمل اپنایا۔

2023 میں جاپان نے ٹریٹڈ پانی کو بحر الکاہل میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا، جو سائنسی معیارات کے مطابق محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن چین اور دیگر ممالک نے اس پر شدید اعتراض کیا۔ سنہ 2023 میں جاپان نے فوکو شیما اٹامک ری ایکٹر کی تباہی سے آلودہ پانی کو ٹریٹمنٹ کے بعد جب بحر الکاہل میں بہایا تو چین نے اسے بحری قوانین کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے جاپانی سمندری غذاؤں پر پابندی عائد کردی، بتایا جاتا ہے کہ یہ پابندی جاپان کے لیے ایک بڑا کاروباری نقصان تھا کیونکہ چین جاپانی بحری خوراک کا سب سے بڑا خریدار سمجھا جاتا ہے۔ جاپان نے تب سے ان پابندیوں کے خاتمے کے لیے مستقل سفارتی کوششیں تیز کر رکھی تھیں۔ رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کے عمائدین کے درمیان اس ملاقات میں غذائی اور زرعی تعاون کو مضبوط بنانے پر بات ہوئی ہے۔ چینی وزیر نے کہا ہے کہ تعلقات بہتری کے ’’اہم مرحلے‘‘ میں ہیں، جبکہ جاپان نے چین کو سمندری غذا پر عائد پابندی ہٹانے کی نئی درخواست پیش کی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق چینی حکومت کے مثبت اشارے اس بات کی علامت ہیں کہ بیجنگ اقتصادی اور سیاسی تناؤ کو کم کرنے کی طرف مائل ہے اور اس پیش رفت سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی اُمید ہے بلکہ یہ خبر فوکوشیما نیوکلیئر تنازعے کے بعد پیدا ہونے والے خدشات کو بھی کم کرنے کا عندیہ دیتی ہے۔

تجزیہ کار کہ رہے ہیں کہ چین کی جانب سے جاپانی سمندری غذا پر عائد پابندی ختم کرنے کی تیاری کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں، جو اس معاملے میں چینی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا پتہ دیتے ہیں جن میں سے ایک بڑا فیکٹر معاشی منفعت کا ہے۔

واضح رہے کہ چین جاپانی سمندری غذا کا سب سے بڑا خریدار تھا، اور 2023 میں پابندی عائد ہونے کے بعد دونوں ممالک کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچا۔چین کی فوڈ انڈسٹری، خاص طور پر ریستوران اور فش پروسیسنگ کاشعبہ، جاپانی سمندری غذا پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے۔ اس پابندی کے باعث چین کو متبادل ذرائع تلاش کرنے میں دشواری پیش آئی، جس سے قیمتیں بڑھ گئیں اور صارفین کو بھی نقصان پہنچا۔

دوسری جانب جاپان کی برآمدات پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے کیونکہ 2023 سے پہلے جاپان کی سمندری غذا کی برآمدات کا بڑا حصہ چین جاتا تھا۔ پابندی نے جاپانی ماہی گیروں اور فوڈ انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچایا، جس نے جاپان کو سفارتی سطح پر مزید متحرک کیا۔

امید کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے ہونے والی کوئی مثبت پیش رفت علاقائی سیاست اور اعتماد کی بحالی کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگی۔

چین اور جاپان، دونوں ایشیا کی بڑی طاقتیں ہیں، اور ان کے تعلقات خطے کے استحکام کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

علاقائی امور سے متعلق ماہرین اس پیشرفت کو مخصوص سیاسی دباؤ کے تناظر میں بھی سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک بیانیے کے مطابق علاقائی تعلقات میں کشیدگی نے چین کو یہ احساس دلایا ہے کہ طویل تنازع سے اس کی سفارتی پوزیشن متاثر ہو سکتی ہے۔ ہر چند کہ انڈو پیسیفک اور ساؤتھ چائنا سی کے تنازعات دونوں ممالک کے درمیان ابھی ایک بڑی خلیج ہیں لیکن چین یہ سمجھتا ہے کہ محدود پیمانے پر سہی لیکن جاپان کے ساتھ بہتر تعلقات نہ صرف خطے میں چین کی حیثیت کو مضبوط کریں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کاروباری میدان میں اس کی ساکھ بہتر ہوگی۔ مزید برآں اس پابندی کو ہٹانے سے دونوں ممالک کے درمیان بڑے مسائل کے حل کے لیے اعتماد بحال ہوگا، جو مستقبل کے تعاون کے لیے بھی ضروری ہے۔

تیسری دنیا کے ان ممالک کے لیے ان مذاکرات میں ایک سبق پنہاں ہے کہ خواہ محدود طور پر سہی، لیکن متنازع امور کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے ہی میں عافیت ہے۔ جاپان نے اس معاملے کو عالمی سطح پر جس طرح دانشمندی سے پیش کیا وہ بھی سفارتی شعبے کے لیے ایک کیس اسٹڈی ہے۔

جاپان نے تنازع کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ فوکوشیما کا ٹریٹڈ پانی عالمی ماحولیاتی معیارات کے مطابق ہے۔

جاپان نے پانی کے اخراج کے بارے میں تمام تفصیلات شفاف انداز میں پیش کیں، جس کے نتیجے میں چین اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہوا۔

چین کی جانب سے اس معاملے پر نرم گوشہ دکھانے کی ایک اور وجہ چین میں بڑھتی ہوئی فوڈ ڈیمانڈ اور سمندری غذا کی قلت بھی ہے۔ اس سلسلے میں اگر عوامی دباؤ کو بھی ایک اہم محرک کہا جائے تو یہ اس لیے غلط نہ ہوگا کہ چینی عوام نے بھی جاپانی سمندری غذا کی قلت پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے، کیونکہ جاپانی سی فوڈ چینی عوام کے معیار اور ذائقے کے حوالے سے منفرد سمجھی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں تیسرا بڑا محرک یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پابندی جاری رکھنے سے چین کی فوڈ سپلائی چین متاثر ہو سکتی ہے، جو طویل مدتی نقصان کا باعث بنے گی۔

یہ تنازع اور اس کا حالیہ حل اس بات کا مظہر ہے کہ مسائل کا حل طاقت کے بجائے مذاکرات میں ہے اور اختلافات کو اگر افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے، تو خطے میں استحکام اور ترقی ممکن ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان حالیہ پیش رفت ان کے تعلقات میں ایک مثبت موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر دونوں ممالک یہی جذبہ دیگر تنازعات کے حل میں بھی دکھائیں تو ایک پرامن اور خوشحال ایشیا کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔