کوٹا سسٹم کے کڑوے کسیلے پھل

185

انٹر بورڈ کے حالیہ امتحانات کے نتائج نے شہر کراچی کو اعلیٰ تعلیم میں پیچھے دھکیل دیا تو اس کو سوتیلی ماں کا سا سلوک سمجھا گیا۔ شہر کراچی میں ایسا بھونچال بپا ہے کہ ماتم کناں ہے علم کا گہوارہ۔ کیا یہ نتائج کسی دوررس منصوبے کا حصہ ہیں؟ جی ہاں سیاست کے بطن سے کچھ یوں ہی ظاہر ہوتا ہے، جس کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکمرانی میں وزیراعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو کے لسانی بل سے ہوا، مگر یہ منصوبہ جلد بازی کی وجہ سے ناکام ٹھیرا اور اس نے منہ کی کھائی تو پھر کوٹا سسٹم کے نام پر اس کو کوٹیڈ کرکے اندرون سندھ یعنی دیہی اور شہری تقسیم داخلوں اور ملازمتوں میں یہ کہہ کر کی گئی کہ دیہی علاقے میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے، سو دس سال کے لیے اُن کو رعایت دی جائے گی۔ اور اس تقسیم کا طریقہ کار ڈومیسائل بنا جس کا 3 سال تک رہنے والا حقدار بنایا گیا کہ جو اِس عرصے تک جہاں مقیم رہا اُس کے لیے وہاں کے ڈومیسائل کا اجرا ہوگا۔ بعدازاں اس سے مقاصد پورے نہ ہوتے دیکھ کر پی آر سی اور پی آر ڈی یعنی مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ کا لازمی دم چھلا لگادیا گیا۔ ایک طرف حکومتی قدغن تھی، اور وہ یوں غلط تھی کہ درس گاہ کے بجائے پیدائش کے مقام کو ان دستاویزات کی بنیاد بنایا گیا۔ یوں سیاست دانوں، وڈیروں، سرکاری عمل داروں نے مقام پیدائش اور زرعی زمین کا فائدہ سمیٹا اور شہر کی اعلیٰ درس گاہوں کا فیض اُٹھایا۔ اس طرح داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹا سسٹم کے تریاق سے فائدہ سمیٹا۔ حد تو یہ ہے کہ جب اس سے بھی پیٹ نہ بھرا تو شہری ڈومیسائل اپنے بھرتی کردہ افسران سے بنواکر شہری کوٹے پر بھی ڈاکے کا بندوبست کیا گیا۔ ایک طرف اپنوں کے لیے یہ نوازش تھی تو دوسری طرف یہ عالم اندرونِ سندھ میں رہا کہ دوسری بڑی لسانی اکائی کے لیے ڈومیسائل کا حصول سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنے جیسا ناممکن بنادیا گیا، اور 1947ء میں پاکستان آمد کی دستاویزات تک طلب کی جاتی تھیں۔ ایک طرف یہ حکومتی چیرہ دستیاں تھیں تو دوسری طرف کامریڈوں کے روپ میں طالب علم، دوسری لسانی اکائیوں کے طالب علموں کو درس گاہوں میں آنے پر مارتے تھے اور اُن کے لیے یہ نوگو ایریا تھیں۔ مقصود یہ تھا کہ نہ یہ پڑھیں، نہ ہی ان کی تعلیم بیرونِ ملک نوکری کا ذریعہ بنے۔ اندرون ملک تو ملازمت شجر ممنوعہ ہے۔ اور پھر ہوا یہ کہ اس سیاسی چھاچھ سے وہ بیوروکریسی وجود میں آئی کہ ایک ڈی سی صاحب کو عدالت میں انگریزی میں کیے گئے سوال پر برملا یہ اعتراف کرنا پڑا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا، سر سے گزر گیا۔ یہ میڈیا میں اُن دنوں خوب ہائی لائٹ ہوا۔ یہ کڑوے ثمرات کوٹا سسٹم کے تحت اپنوں کو نوازنے کے سیاسی اصول کے تحت ہیں، جس کے لیے فلسفہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ پرائی کھیتی کو کون پانی دیتا ہے! 2008ء کے معاہدۂ اقتدار کی پاسداری میں پی پی پی کو حکومت دی گئی جس کا محور اپنوں کو نوازنا اور انہیں خودساختہ میرٹ اور کوٹا سسٹم کی بنیاد پر سرکار میں کھپانا رہا۔ مگر پھر بھی بات نہ بنی تو فائنل رائونڈ میں کراچی کے انٹر بورڈ کے امتحانات میں یہ کرشمہ سازی کی گئی کہ شہری تعلیمی معیار دیہی تعلیمی معیار سے بھی زیادہ پسماندہ دکھایا گیا تاکہ شہری حلقہ اُس دیہی کوٹا کا بھی حقدار نہ ٹھیرے جو دیہی معیار تعلیم کو ملحوظ رکھ کر، انہیں دس سال کے لیے رعایت کا حقدار بنایا گیا تھا۔ یہ رعایتی دورانیہ اب نصف صدی پوری کرچکا ہے مگر یہ کمبل جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، ہر آنے والا حکمراں اس کو سیاسی ضرورت کے لیے اوڑھنے پر طوعاً وکرہا مجبور ہوتا رہا۔ انٹر بورڈ کے گھپلوں کی خبر 2024ء کی رپورٹ کی صورت یوں منظر عام پر آئی کہ کچھ ذمہ داروں کو مورد الزام ٹھیرایا گیا اور طے کیا گیاکہ وہ آئندہ بورڈ میں کسی بھی ذمے داری کے لیے نااہل ہوں گے۔ مگر ہوا کیا؟ یہ راز یوں طشت ازبام ہوا کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر خان نے ایک خط وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھیج کر پوچھ ڈالا کہ سالِ گزشتہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں جن لوگوں کو انٹر بورڈ میں بے ضابطگیوں کا ذمے دار قرار دیا گیاوہ اپنے خلاف کارروائی کے بجائے ترقی کرکے دوبارہ اعلیٰ عہدوں پر کیسے فائز ہوگئے؟ انہیں ترقی کس نمایاں کارنامے پر دی گئی؟ مگر اب تک جوابِ شکوہ نہیں آیا۔ بتایا کوٹا سسٹم کی رعایت مان لو تعلیمی پسماندگی کے مظلوموں کے لیے دس سال کے لیے تھی تو پھر چھوٹ در چھوٹ کا مطلب اقتدار کی خاطر ملک کا بھٹہ بٹھانے کی شرمناک سوچ ہی تھی کہ آج ملک لرزہ براندام ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جس درخت کی جڑ کڑوی ہوگی اس کا پھل بھی کڑوا ہوگا۔ کوٹا سسٹم کڑوی جڑ ہے تو پھل کڑوے اور کسیلے ہی ہوں گے۔ اس جڑ کو اکھاڑ پھینکنا ہی حل ہے، مگر جو بویا ہے اُسے بھگتنا ہوگا۔ یہ کوٹا سسٹم کے کڑوے ثمرات ہیں۔

یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں