سندھ میں ڈاکو راج سے کب نجات ملے گی

86

سندھ میں امن و امان کی مخدوش صورتحال، ڈاکوراج اور قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے نہ صرف معمول کی زندگی مفلوج، کاروبار معیشت تعلیم تباہ بلکہ سندھ کی پہنچان امن محبت ثقافت وروایات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ سندھی معاشرے میں عورت کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے کسی بھی تنازع کے حل کے لیے خواتین کو ساتھ لے جانے سے احترام میں مخالفین قتل تک معاف کر دیتے ہیں مگر کچھ عرصے سے خیرپورمیں فاطمہ فروڑو کے دردناک قتل سے لیکر سنگرار سکھر سے ساڑھے تین سال سے اغوا کی گئی پریا کماری کے لاپتا ہونے تک معصوم بچیوں و خواتین کے اغوا زیادتی اور قتل کے واقعات نے ہمارے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بدامنی کا یہ عالم ہے کہ لوگ دن ہو یا رات روڈ ہو یا دکان حتیٰ کہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ ویسے تو پورا صوبہ خاص طور بالائی سندھ لاڑکانہ و سکھر ڈویژن کے اضلاع بدامنی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ جیسے جیسے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن ہوتا ہے ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ڈکیتی، لوٹ مار و اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ضلع کشمور کے عوام نے دو ماہ سے زیادہ ضلع میں احتجاج اور کراچی، لاڑکانہ و سکھر پریس کلب و ڈی آئی جی پولیس کے دفتر کے باہر دھرنے دیے مگر نتیجہ زیرو رہا۔ لگتا ہے حکمران گونگے بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں۔

چوتھی بار پیپلزپارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے مگر تعلیم صحت سے لیکر صاف پانی اور قیام امن تک کارکردگی کچھ بھی نہیں۔ اب حال ہی میں 12 مزید خاص معاونین اور 9 ترجمانوں کے تقرر کے ساتھ سندھ کابینہ کی تعداد چالیس کے قریب ہوگئی ہے۔ مطلب یہ کہ وزیروں مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج ہے جو کہ اقربا پروری اور غریب صوبہ کے بجٹ پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہر ترجمان کی ایک لاکھ روپے تنخواہ، گاڑی پٹرول عملہ دیا جاتا ہے۔ صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ ہائوس کا خرچہ 42 ارب بتایا جارہا ہے۔ دوسری طرف گزشتہ سال صرف ایک ضلع تھر پارکر میں ڈیڑھ سو سے زاید لوگوں نے غربت و افلاس کی وجہ سے خود کشی اور 450 معصوم بچے وہاں پر خوراک کی کمی اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ گورکھ ہل، کے فور سے لیکر جامشورو سے سہیون تک دو وریہ روڈ ہو کوئی بھی منصوبہ وقت پر تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ سندھ میں صرف ’’سسٹم‘‘ کا جادو چل رہا ہے باقی سب خیر ہے! ان حالات کے پیش نظر اور حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے جماعت اسلامی سندھ نے 12 جنوری کو سکھر کے مقامی ہوٹل میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی جس میں 35 سے زاید سیاسی دینی قوم پرست تنظیموں کے رہنما، مشائخ، خانقاہوں کے سجادہ نشین، وکلا اقلیتی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اے پی سے سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بالائی سندھ بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ ہمارے بچے، کسان، خواتین اور صحافی ڈاکوؤں کی پرتشدد کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ عوام اور سیاسی جماعتوں کے بار بار احتجاج، سڑکیں بلاک کرنے کے باوجود حکومت اور ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عوام عدم تحفظ کا شکار کیوں ہے؟ لگتا ہے کہ چوکیدار چوروں سے ملا ہوا ہے، سندھ میں پانی پر ڈاکا، امن امان کی مخدوش صورتحال اور ڈاکوراج میں پیپلزپارٹی کی حکومت برابر کی شریک ہے، پانی پر ڈاکے سے لیکر سندھ میں ڈاکو راج تک خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ مزاحمت میں زندگی ہے اور غلامی موت ہے۔ جماعت اسلامی سندھ میں امن، پانی پر ڈاکے اور سندھ کے وسائل کے تحفظ کے لیے پرامن اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ سندھ کے حقوق اور مفادات کے لیے تمام سندھ دوست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا

ہوگا۔ کاشف شیخ نے مزید کہا کہ سندھ میں 16 سال سے پیپلز پارٹی کے ظلم و جبر کا دور ہے اور حکمران سندھ کے عوام کا خون پی رہے ہیں۔ امن کی بحالی کے لیے 155 ارب روپے اور آپریشن کے نام پر الگ بجٹ رکھا گیا لیکن اس کے باوجود سندھ کے عوام امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ ہر ضلع میں پانچ سے چھے افراد کو اغوا کیا گیا ہے۔ اپر سندھ کی 72 لاکھ آبادی اس وقت جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ سندھ کو جان بوجھ کر وانا وزیرستان بنایا جا رہا ہے۔

اے پی سی میں مزید جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے بحالی امن ایکشن کمیٹی کے قیام کا اعلان۔ 28 جنوری کو ایس ایس پی دفاتر کے سامنے دھرنا، 16 فروری کو سکھر ببرلو اور شکارپور میں انڈس ہائی وے پر دھرنا دیا جائے گا، اس کے بعد بھی حکومت نے امن بحال نہیں کیا تو وزیر اعلیٰ ہائوس کا گھیرائو اور اسلام آباد تک لانگ مارچ ہو گا۔ آخر میں اے پی سی کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ:

جماعت اسلامی سندھ کی میزبانی کے تحت سکھر میں بدامنی، ڈاکو راج اور قبائلی تصادم کے خاتمے کے لیے منعقد ہونے والی ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ میں شریک تمام سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بالائی سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی، اغوا، ڈاکو راج کی وارداتوں کے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پیپلز پارٹی کی گزشتہ 16 سالہ دور حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔ بدامنی، قبائلی لڑائیوں اور اغوا برائے تاوان کی وجہ سے نہ صرف ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے بلکہ یہاں کاکاروبار، زراعت اور تعلیم بھی تباہ ہو چکی ہے اور سندھ کی امن، محبت اور رواداری کی تہذیب بھی تباہ ہو رہی ہے۔ سندھ کی ترقی، نوجوانوں کا مستقبل اور عوام کی خوشحالی سندھ کے امن سے وابستہ ہے۔ تیل، گیس، کوئلے اور زراعت سے مالا مال سندھ صوبے میں اس وقت غربت، بھوک اور بدحالی نے ڈیرے جما لیے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گڈ گورننس کے فقدان اور حکومت کی نااہلی کی وجہ سے آج سندھ کو ان مسائل کا سامنا ہے۔ سندھ کو جان بوجھ کر بدامنی کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور سندھ کے وسائل کو نیلام کیا جارہا ہے۔

اس اے پی سی کا تقاضا ہے کہ: *جرائم کے خاتمے کے لیے ڈاکو راج اور ان کے سرپرستوں کے خلاف بلا تفریق آپریشن کرکے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ *ڈاکوؤں، پولیس اور بااثر ظالم وڈیرہ شاہی کے نیٹ ورک کو توڑا جائے۔ *قبائلی جھگڑے بھی ایک ناسور بن چکے ہیں جو بدامنی میں اضافے کا ایک اہم سبب بھی بن رہے ہیں۔ *قبائلی تنازعات کے خاتمے کے لیے سخت قانون سازی کی جائے اور حکومت متحارب قبائل کے سرداروں کو پابند کرے کہ وہ متصادم قبائل میں جھگڑے ختم کرنے کے لیے پابند بنائے۔ *پیپلز پارٹی کی حکومت نے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے والے مجرموں اپنی صفوں سے نکال باہر کرے، جیکب آباد میں صوبائی مشیر کے پولیس اسکواڈ کی گاڑی میں جرائم پیشہ افراد کو جدید اسلحہ اسمگل کرتے ہوئے پکڑا جانا، سابق ایس ایس پی شکارپور کی جانب سے مجرموں کو بنگلوں کی سرپرستی اور تازہ ترین گھوٹکی واقعہ اور آئی جی کمیٹی کی رپورٹ اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ کچے کے ڈاکو پکے کے ڈاکووں کی سرپرستی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ *حکومت نے ٹھل سے اغوا ہونے والی لڑکی فضیلہ سرکی اور سنگرار سکھر سے مغوی لڑکی پریا کماری کی بازیابی کے لیے سنجیدہ اور موثر اقدامات کرے۔ *صحافی جان محمد مہر، نصراللہ گڈانی، اجے لالوانی اور عزیز میمن کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سخت سزا دی جائے۔ *حکومت کو چاہیے کہ وہ امن و امان کی بحالی، جرائم کے خاتمے اور شہریوں کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کرتے ہوئے اپنی ذمے داری پوری کرے۔ *ڈاکوؤں تک جدید ہتھیاروں کی غیر قانونی رسائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کھلی ناکامی ہے۔ * قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین اسمبلی بدامنی کے خاتمے کے لیے اسمبلیوں میں سیر حاصل بحث کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ سندھ کو پرامن صوبہ بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ *وزیراعلیٰ سندھ امن و امان کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کریں اور متاثرہ اضلاع کا فوری دورہ کریں۔ موجودہ آئی جی سندھ اور کرپٹ پولیس افسران کو فوری طور پر ہٹا کر ایماندار اور دلیر افسران کو تعینات کیا جائے۔