چائلڈ کورٹ کا قیام

177

آخری حصہ


انہوں نے کہا کہ جب سے میں نے یہ کیس اٹھایا ہے میرے خلاف کئی جھوٹی ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں اور پولیس میرے پیچھے گھوم

رہی ہے۔ نوشین افتخار نے ان سے ایف آئی آر کی کاپی لیتے ہوئے کہا میں اس کیس کو دیکھتی ہوں جو کچھ ہوسکے گا آپ سے تعاون کریں گے۔

درج بالا اسٹوری ہمیں کیپٹل ٹاک کے پروگرام سے ملی ہے۔ اس میں میرے نزدیک دو چیزیں بڑی تشویشناک ہیں ایک تو یہ کہ چائلڈابیوزڈ کے حوالے سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ دوسری تشویش کی بات یہ ہے کہ بچوں نے یہ بتایا کہ اس طرح کی حرکات میں زیادہ تر رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں۔ اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ ایک اطمینان کا پہلو یہ کہ ہمیں اب تک اپنی قومی اسمبلی لڑائی جھگڑے کا میدان نظر آتی رہی ہے یا پھر ارکان اسمبلی اپنے ٹی اے ڈی اے اور اپنی تنخواہیں بڑھوانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کافی دنوں کے بعد محسوس ہوا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو معاشرے کی بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھتے ہیں اور اس حوالے سے قانون سازی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ایسے تمام ارکان قابل مبارک باد ہیں۔

بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک تربیتی اجتماع میں ایک عالم دین کی تقریر سنی تھی وہ کہہ رہے تھے آج ہمارے مسلمانوں میں وہ تمام برائیاں موجود ہیں جن کے سبب انبیاء کی امتوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا۔ سیدنا لوطؑ کی قوم مردوں سے بدفعلی کی برائی میں مبتلا تھی وہ سرعام اور بھری محفل میں یہ برائی کرتے تھے، حتیٰ کہ وہ نبی کے گھر تک آگئے جہاں انہوں نے سنا کہ کوئی دو خوبصورت لڑکے آئے ہیں جو دراصل فرشتے تھے پھر وہ قوم اللہ کے غضب کا شکار ہوئی۔ آج مسلمانوں میں ویسے تو زنا کی بیماری تو عام ہے ہی لیکن قوم صدوم کی بیماری بھی سرایت کررہی ہے۔ اسی طرح ایک نبی کی امت میں کم تولنے کی برائی تھی آج ہماری قوم میں بھی یہ بیماری عام ہے اسی طرح عاد اور ثمود کی قوم میں پہاڑوں کو تراش کر بڑے اور عالی شان محل اور اپنے گھر بنانے کے عوارض لاحق تھے آج ہم بڑی بڑی خوبصورت اور اونچی اونچی عمارتیں بنانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے غرض یہ کہ انہوں نے اور بھی امت کی برائیوں کا ذکر کیا ان کا کہنا یہ ہے کہ جن برائیوں کے سبب امتوں پر عذاب آئے آج وہ سب ہم میں موجود ہیں تو ہم پر عذاب کیوں نازل نہیں ہورہا وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے لیے تو ہمارے پیارے نبی کریمؐ اللہ سے دعا کی۔ اس لیے ہم ان کی دعائوں سے بچے ہوئے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کسی معاشرے میں اگر کوئی گروہ یا جماعت معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہو یا دوسرے الفاظ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فریضہ کا انجام دے رہی ہو تو پھر اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آتا لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم نہ صرف خود بھرپور انداز میں یہ فریضہ انجام دیں بلکہ اور دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں آپ اپنے معاشرے میں ارد گرد کے ماحول سے سعید روحوں کو تلاش کریں اور اپنی اجتماعیت میں شامل کریں۔

آخر میں جن دو نکات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا ان کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے پہلی تو یہ چائلڈ ابیوز میں پاکستان تیسرے نمبر پر کیوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں قانون تو ہے لیکن سزائیں نہیں دی جاتیں تقریباً سات ہزار کیسز میں صرف دو سو کو سزائیں دی گئیں اس طرح سے تو یہ جرائم بڑھتے رہیں گے اور ہم پہلے نمبر پر بھی آسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں لاہور میں پپو نامی بچے کو اغوا کرکے اس سے بدفعلی کی گئی پھر اس کو قتل کردیا اس کے پانچ ملزمان پکڑے گئے انہیں شارع عام پر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ دوسری جو بچوں نے رشتے داروں کے حوالے سے بتائی اس میں تو یہی کہوں گا یہ والدین کی ذمے داری ہے اپنے رشتے داروں کو آپ جتنی اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ کون کس ذہن اور کس اخلاق کردار کا مالک ہے وہ بچہ نہیں جانتا اس لیے آپ بڑی حکمت سے رشتے داریاںبھی نہ ختم کریں لیکن بچوں کو ان کی پہنچ سے دور رکھیں۔