اسلام آباد(نمائندہ جسارت)عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ فیصلہ حکومت کے خلاف آنے کا امکان ہوتو بینچ سے کیس ہی لے لیا جاتا ہے‘ یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آ گیا تو کمیٹی کا کام ختم ہوگیا، کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہوگئی،یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آگیا، آخر اللہ تعالی نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے۔ بنچز کے اختیارات کا کیس مقررنہ کرنے پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی، جسٹس عقیل عباسی بنچ کا حصہ ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے رجسٹرار سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ جس پر رجسٹرار نے جواب دیا کہ یہ کیس آئینی بنچ کا تھا غلطی سے ریگولربنچ میں لگ گیا تھا۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟ معذرت کے ساتھ غلطی صرف اس بینچ میں مجھے شامل کرنا تھی، میں اس کیس کو ہائیکورٹ میں سن چکا تھا، پتا نہیں مجھے اس بنچ میں شامل کرنا غلطی تھی یا کیا تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟ جس پر رجسٹرار نے جواب دیا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے، ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا۔رجسٹرار نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ پیش کردیا ،رجسٹرار آفس کا نوٹ رجسٹرار کے مؤقف سے متضاد نکلا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بنچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا تھا کیس کس بنچ میں لگنا ہے۔رجسٹرار نے جواب دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بنچ کی کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بنچز کی کمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے، ترمیم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کونسے مقدمات بنچ میں مقرر ہو سکتے ہیں کونسے نہیں۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترمیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا، پہلے تو شور ڈلا ء ہوا تھا لیکن ترمیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہو رہا تھا، ٹیکس کے کیس میں کونسا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا؟جسٹس منصور نے رجسٹرار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے، دفاع میں پیش کئے جانے والے مؤقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟رجسٹرار نے جواب دیا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے جس پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو آپ کو ہم بتائیں گے اس کیس میں کہ وہ اس لے سکتی ہے یا نہیں، مجھے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت کا کہا گیا تھا، کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ جوڈیشل حکم جاری کر چکا ہوں اس لیے میرا اجلاس میں آنا لازمی نہیں، ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ ایک مقدمہ سننے سے اتنی پریشانی کیوں ہو گئی کہ بنچ سے کیس ہی منتقل کر دیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں، 17 جنوری کو ججز کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے، مجھے ریگولر ججز کمیٹی اجلاس میں مدعو کیا گیا، پھر 17 جنوری کو ہی آرٹیکل 191 اے فور کے تحت آئینی بنچز ججز کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس وقت عدالتی بنچ میں کیس تھا اس وقت دو اجلاس ایک ہی دن ہوئے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ججز کی آئینی کمیٹی نے منٹس میں کہا 26 ویں آئینی ترمیم کیس آٹھ ججز کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کیا جاتا ہے، اس لیے یہ کیس آئینی بنچ میں بھیجا جاتا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف تو ہم کیس سن ہی نہیں رہے تھے، چلیں اچھا ہے، اس کیس کے بہانے کیسز تو لگنا شروع ہوگئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا دو رکنی عدالتی بنچ پانچ رکنی لارجر بنچ بنا سکتا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کو فل کورٹ بنانے یا لارجر بنچ تشکیل دینے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ موجودہ بنچ کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج کیس سن رہے ہیں ہو سکتا ہے کل یہ بنچ بھی نہ ہو، کوئی تیکھا سوال پوچھیں تو شاید یہ بنچ بھی ختم کر دیا جائے، رجسٹرار صاحب کیا پتہ نوٹ لکھ دیں کہ اس بنچ کو ختم کیا جائے، توہین عدالت کے کیس میں ممکنہ احکامات جاری کرسکتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو کمیٹی آرڈرز اپنے دفاع میں پیش کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ لیں گے، ہم توہین عدالت کے معاملے پر کس حد تک جا سکتے ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ کمیٹی یا ریسرچ افسر صرف نوٹ لکھ سکتا ہے کہ مقدمہ کس بنچ کو جانا چاہیے، کیس آئینی بنچ کے سننے والا ہے یا نہیں تعین کرنا عدالت کا کام ہے، سندھ ہائی کورٹ میں آئے روز نارمل اور آئینی بنچز ایک دوسرے کو مقدمات بھجوا رہے ہوتے ہیں، کمیٹی کے جاری احکامات کا عدالتی جائزہ لینا ضروری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بنچز کے اختیارات کا مقدمہ فل کورٹ میں مقرر کر دیا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بنچ عدالتی حکم کے تحت نیا بنچ تشکیل دے سکتا ہے؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ عدالت ماضی میں انتظامی پروسیجر پورا کرنے کیلئے چیف جسٹس یا کمیٹی کو کیسز بھجواتی رہی ہے، چیف جسٹس ہوں یا کمیٹی عدالتی احکامات کے پابند ہی ہوتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے سینئر وکیل منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کر تے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلا کو کل سنیں گے، یہ اہم معاملہ ہے کہ ججز کمیٹی بنچ سے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں۔بعدازاں عدالت نے سپریم کورٹ میں بنچز کے اختیارات سے متعلق کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔بعدازاں عدالت عظمیٰ میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں زیر سماعت ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کو ڈی لسٹ کردیا گیا ہے۔عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس سے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کے ڈی لسٹنگ کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔رجسٹرار آفس کی جانب سے ڈی لسٹنگ کے بعد کل سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکے گی۔واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے آرٹیکل 191-اے سے متعلق کیس حکم کے نامے کے مطابق اسی بینچ میں مقرر نہ کرنے پر20 جنوری کو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا تھا۔