امریکا کی 18 ریاستوں نے پیدائش کی بنیاد پر دی جانے والی شہریت کے خلاف صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو مسترد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کردیا ہے۔ پیدائشی شہریت کے حق میں کھڑی ہونے والی اِن امریکی ریاستوں میں ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔
جن ریاستوں نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے اُن میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور سان فرانسسکو بھی شامل ہیں۔ یہ مقدمہ بوسٹن کی ایک وفاقی عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے جاری کیا جانے والا ایگزیکٹیو آرڈر امریکی آئین کے منافی ہے۔
ڈیموکریٹس کی حکومت والی ریاستوں کے علاوہ شہری حقوق کی انجمنوں نے بھی پیدائش کی بنیاد پر دی جانے والی شہریت کے خلاف جاری کیے جانے والے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو مسترد کرنے ہوئے اُسے عدالتوں میں چیلنج کیا ہے۔ ان انجمنوں نے دیگر ایگزیکٹیو آرڈرز کو بھی چیلنج کیا ہے۔
جن انجمنوں نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈرز کو چیلنج کیا ہے ان میں دی امریکن سول لبرٹیز یونین، امیگرنٹس آرگنائزیشنز کے علاوہ ایک ایسی خاتون بھی شامل ہیں جن کے ہاں ولادت ہونے والی ہے۔ اِدھر ٹرمپ نے صدر کا منصب سنبھال کر قانونی کارروائیاں شروع کی ہیں اور اُدھر اُن کے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائیوں کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔
ریاستوں کے اٹارنیز جنرل متحرک ہوگئے ہیں۔ نیو جرسی کے اٹارنی جنرل میتھیو پلیٹکِن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم ٹرمپ انتظامیہ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اُس کی طرف سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور حق تلفی کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کو چیلنج کرنے والے دیگر مقدمات بھی دائر کیے گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اس محکمے کے حوالے سے بھی مقدمات دائر کیے جاچکے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی ملازمت کو حاصل تحفظ کو چیلنج کرنے والے اقدامات کو بھی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔
میساچوسیٹس اور نیو ہیمپشائر کے ججوں کی طرف سے دی جانے والی کسی بھی رولنگ کا بوسٹن کی فرسٹ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں جائزہ لیا جائے گا جس کے پانچوں فعال ججوں کو ڈیموکریٹ صدور نے تعینات کیا ہے۔ امریکا میں یہ اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد معاملہ ہے۔
امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت ہر وہ شخص امریکی شہری ہے جو امریکی سرزمین پر پیدا ہوا ہو۔ اس حوالے سے تمام اپیلیں، شکایات اور مقدمات امریکی سپریم کورٹ کی 1898 کی ایک رولنگ کے تحت دائر کیے گئے ہیں جس کے مطابق امریکی سرزمین پر غیر امریکی شہری والدین کے ہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ امریکی شہریت کا حقدار ہے۔
اگر امریکی صدر ٹرمپ کے جاری کردہ ایگزیکٹیو آرڈر کو قبول کرکے نافذ کردیا گیا تو امریکا میں ہر سال پیدا ہونے والے بچوں میں سے ڈیڑھ لاکھ کو شہریت کے حق سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ بات میساچوسیٹس کے اٹارنی جنرل آندرے جوئے کیمبل نے بتائی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا کہ وہ آئینی طور پر حاصل حقوق سے کسی کو محروم کرنے کا حکم نامہ جاری کریں۔
اس وقت 17 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے 10 لاکھ باشندے سکونت پذیر ہیں جن کے ممالک کو طبعی نوعیت کی بربادی یا پھر خانہ جنگی اور پُرتشدد وارداتوں کے باعث پیدا ہونے والی ہنگامی حالت کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے والے سے بھی جاری کیا ہے۔ دی نیشنل ٹریژری ایمپلائیز یونین نے، جو ملک بھر میں وفاقی حکومت کے 37 فیصد ملازمین کی نمائندگی کرتی ہے، ایک وفاقی عدالت میں دائر کیے جانے والے مقدمے میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی دن ایک ایسا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا ہے جس کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو فارغ کرکے سیاسی وفاداروں کو بھرتی کرنے کی راہ ہموار کی جانی ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت کسی بھی بچے کو امریکا کی شہریت اس وقت ملنی چاہیے جب اُس کے والدین میں کوئی ایک بھی امریکی شہری ہو، مستقل رہائش کے اجازت نامے یعنی گرینڈ ہولڈر کا حامل ہو یا پھر امریکی فوج میں خدمات انجام دیتا رہا ہو۔
اگر پیدائش کی بنیاد پر دی جانے والی شہریت کا سلسلہ ختم کیا جانے لگا تو امریکا میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن میں بھارتی باشندے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔