محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہے تو چلتا ہوا کیس بینچ سے واپس لے لیا جائے، عدلیہ کی آزادی ختم ہوگئی: جسٹس منصور

122
it cannot happen that the court decision

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کسی کیس میں یہ محسوس ہو کہ فیصلہ حکومت کے خلاف جا سکتا ہے تو کمیٹی کو کیا یہ حق ہے کہ وہ کیس کو عدالتی بینچ سے واپس لے لے؟ 

سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کی زیر قیادت دو رکنی بینچ نے توہین عدالت کے کیس کی سماعت کی۔ 

رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، سماعت کے آغاز میں ججز نے رجسٹرار سے سوال کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس کی سماعت کیوں نہیں کی گئی؟

 جس پر رجسٹرار نے بتایا کہ یہ کیس آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا تھا لیکن غلطی سے اسے معمول کے بینچ میں شامل کر لیا گیا۔

اس پر جسٹس عقیل عباسی نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ غلطی تھی تو یہ اتنی دیر سے کیوں محسوس کی گئی؟ کیا اب تک اس غلطی کا ادراک کیسے ہوا؟ 

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کمیٹی نے اس معاملے پر اجلاس بلایا تھا تو یہ کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس منعقد کیا یا آپ نے درخواست کی؟ 

رجسٹرار نے بتایا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ ہم نے واضح طور پر حکم دیا تھا کہ کیس کس بینچ کے سامنے آنا ہے۔

جسٹس منصور نے رجسٹرار سے کہا کہ وہ وہ نوٹ عدالت میں پیش کریں جو کمیٹی کو بھیجا گیا تھا۔ رجسٹرار نے نوٹ پیش کیا، جس میں رجسٹرار کے مؤقف سے تضاد پایا گیا۔ 

جسٹس منصور نے کہا کہ اس نوٹ میں کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا گیا اور آپ نے 16 جنوری کے آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کی تجویز دی تھی، حالانکہ اس آرڈر میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے۔

رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس کو آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیجا تھا اور آئینی ترمیم سے متعلق مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے گئے ہیں۔

جسٹس منصور نے کہا کہ اگر یہ کیس کمیٹی کی غلطی سے رہ گیا تھا تو اب چونکہ یہ ہمارے سامنے آ گیا ہے، اس کا فیصلہ کرنا کمیٹی کا کام نہیں ہے۔ اگر کمیٹی اس کیس کو واپس لے لے تو عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھ سکتا ہے، کیونکہ اگر حکومت کے خلاف فیصلہ ہونے کا امکان ہو تو کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے۔

جسٹس عقیل نے کہا کہ کم از کم آئینی ترمیم کے کیس کی سماعت تو شروع ہوئی، جس پر پہلے اتنا شور مچایا گیا تھا۔ لیکن جب ٹیکس کے کیس میں آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا تو وہ مقدمہ کیوں واپس لے لیا گیا؟ ایک کیس کی سماعت سے کیوں اتنی پریشانی ہوئی کہ اسے بینچ سے ہی نکال لیا گیا؟

جسٹس منصور نے مزید کہا کہ 17 جنوری کو ججز کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے اور مجھے ایک اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا، جس میں میں نے جواب دیا کہ چونکہ یہ جوڈیشل آرڈر کے تحت کیس تھا، اس لیے کمیٹی میں شرکت کرنا مناسب نہیں، ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اسی دن آئینی بینچ کی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا، جس دوران یہ کیس عدالتی بینچ میں تھا،اگر کمیٹی نے ایسا کیا تو یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ بن جائے گا۔

جسٹس منصور نے کہا کہ جس پر جوڈیشل آرڈر ہو چکا ہو، اسے واپس لینا ممکن نہیں ہے۔ اگر ججز کمیٹی نے ایسا کوئی حکم دیا ہے تو وہ پیش کریں، کیونکہ کمیٹی کو عدالتی بینچ سے کیس واپس لینے کا اختیار نہیں ہے۔

آخرکار سپریم کورٹ نے حامد خان اور منیر اے ملک کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے رائے طلب کی کہ کیا ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے باوجود بینچ تبدیل کر سکتی ہے؟ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کے دائرہ اختیار میں عدالت ایسا سوال نہیں اٹھا سکتی۔ جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ ہم آپ کی رائے سنیں گے۔

عدالت نے بینچز کے اختیارات کے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔