پنجاب میں ہر15 منٹ میں ایک ریپ ہورہا ہے؟ایڈوکیٹ جنرل کی رپورٹ پر عدالت کا استفسار

119

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائی کورٹ میں ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی درخواست ضمانت اور اینٹی ریپ ایکٹ پر عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب میں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے؟ تفصیلات کے مطابق کیس کی سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں
ہوئی، 3 رکنی بینچ میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ بھی شامل تھے۔ دوران سماعت عدالت نے آئی جی پنجاب عثمان انور کو فوری طلب کیا۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اینٹی ریپ ایکٹ بننے کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹر ہوچکے ہیں۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے، ہم تو اس حساب سے بھارت سے بھی آگے نکل گئے ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ یہ سب کیسز ریپ کے نہیں ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب کے ہر سینٹر میں ایسے کیسز کے لیے خواتین تعینات ہیں، میڈیکل آفیسر اور دیگر افراد ٹریننگ کروائی جا رہی ہے۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسار کیا کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے 32 ہزار کیسز کے متبادل کٹس خریدیں گئیں ؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ عدالتی احکامات پر بہت سی خامیاں دور کی گئی ہیں۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آئی جی پنجاب کو بلا لیں تاکہ انہیں بھی ان معاملات کا پتہ ہو۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت کے حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحق کا کہنا تھا کہ میڈیا میں ایسے بات آ رہی ہے کہ پاکستان میں ریپ کیسز بہت ہی زیادہ ہیں، رپورٹ میں کارروائی کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق منشیات اور قتل کے مقدمات کے بعد ریپ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، اینٹی ریپ ایکٹ مکمل طور پر نافذالعمل نہیں ہے، اینٹی ریپ ایکٹ کے 3 مراحل ہیں۔ جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ کیس کو رپورٹ کرنے سے پہلے اینٹی ریپ ایکٹ کو پڑھ لینا چاہیے جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق نے مؤقف اختیار کیا کہ 30 فیصد ریپ کے جھوٹے کیسز درج کرائے گئے۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسارکیا کہ کیا جن لوگوں نے جھوٹے ریپ کے مقدمات درج کرائے ان کے خلاف کارروائی ہوئی؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی پنجاب نے ریپ کیسز کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے، جرائم کو ہم سب نے مل کر ختم کرنا ہے۔ جسٹس عالیہ نیلم نے ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی رپورٹ کے مطابق ریپ کے بڑھتے واقعات ہمارے لیے الارمنگ ہیں جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم کوشش کر رہے مکمل طور پر قانون کے مطابق ریپ کیسز کو ڈیل کریں۔جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ان کیسز کی تفتیش کے لیے آفیسر کی بہترین ٹریننگ کی ضرورت ہے۔بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو طلب کرتے ہوئے کارروائی 10 فروری تک ملتوی کر دی۔