کامی کازے ڈرونز اور شمال مشرقی ایشیا کا نیا منظر نامہ

206

دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کا عمومی تصور ایک ایسے ملک کے طور پر ابھرا جو جنگ کے ہولناک نتائج سے بخوبی واقف ہے اور تصادم کے بجائے مفاہمت کے راستے کو ترجیح دیتا ہے۔ جاپانی آئین کی اہم شق آرٹیکل نائن کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ: ’’جاپان ہمیشہ کے لیے جنگ کے حق سے دستبردار ہو گیا ہے اور کسی بھی بین الاقوامی تنازعے کو حل کرنے کے لیے جنگ یا فوجی طاقت استعمال نہیں کرے گا۔ اس آرٹیکل کے تحت جاپان کو اپنی فوج برقرار رکھنے یا جارحانہ جنگ کے لیے ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا مقصد جاپان کو ایک پْرامن ملک کے طور پر قائم رکھنا ہے جو عالمی امن اور استحکام کے لیے کام کرتا ہے‘‘۔ لیکن جاپان کے حالیہ چند اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جاپانی دفاعی نظام اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی اور تزویراتی حکمت عملی کو مرکزی اہمیت دی جا رہی ہے۔ جاپانی حکومت نے 2026 کے مالی سال میں ’’کامی کازے’’ ڈرونز کو اپنی فوجی قوت میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ جدید ہتھیار، جو مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، جاپان کے دفاعی عزائم اور خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔

’’کامی کازے‘‘ جاپانی زبان میں ’’الٰہی ہوا‘‘ یا ’’خدائی ہوا کے جھکڑ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اصطلاح جاپانی تاریخ کے دو اہم مواقع پر سامنے آئی۔ پہلی بار یہ اصطلاح 13 ویں صدی میں منگول حملوں کے دوران استعمال کی گئی، جب ایک طوفان نے جاپان پر حملہ کرنے والے منگول بیڑے کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی پائلٹس کے خودکش مشنز کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی گئی۔ جاپان اپنے جنگی جہازوں میں یکطرفہ ایندھن بھر کر خودکش مشن کے لیے بھجواتا اور پائلٹس اپنے طیارے دشمن کے بحری جہازوں سے ٹکرا کر خود کو قربان کردیتے۔ اور آج، یہ نام جدید ٹیکنالوجی کے ایک نئے ہتھیار، یعنی کامی کازے ڈرونز، کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو رہا ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق جاپان ایک پیچیدہ علاقائی ماحول میں گھرا ہوا ہے۔ چین مشرقی بحیرہ چین میں اپنی فوجی سرگرمیوں کو بڑھا رہا ہے، خاص طور پر متنازع سینکاکو جزائر کے ارد گرد۔ شمالی کوریا کے میزائل تجربات اور جوہری منصوبے بھی جاپان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ تزویراتی ماہرین کے مطابق، جاپان کا یہ اقدام ان خطرات کے تناظر میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔ نانسی جزائر، جو کیوشو اور تائیوان کے درمیان واقع ہیں، جاپان کے لیے ایک اہم اسٹرٹیجک علاقہ ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے کامی کازے ڈرونز انتہائی مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ جاپان کے دفاعی نظام میں ان ڈرونز کی شمولیت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ جاپانیوں کے مطابق، یہ جدید ہتھیار مہنگے اور زیادہ دیکھ بھال کے متقاضی ہیلی کاپٹروں پر انحصار کم کرنے میں مدد کریں گے۔ ان ڈرونز کی کم لاگت اور خود مختار کارکردگی انہیں موجودہ جنگی ضروریات کے لیے ایک عملی حل بناتی ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کی رائے میں جاپان کے اس اقدام سے خطے میں طاقت کا توازن متاثر ہو سکتا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اس فیصلے کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے خلاف ایک مؤثر قدم کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم، چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک اسے جاپان کے دفاعی عزائم کے حوالے سے شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ چینی حکومت نے پہلے بھی جاپان کے دفاعی بجٹ میں اضافے اور جدید ہتھیاروں کی شمولیت پر تنقید کی ہے۔ تزویراتی ماہرین کے مطابق، جاپان کے اس فیصلے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے اثرات امن اور استحکام پر پڑ سکتے ہیں۔

جاپانی حکومت کے مطابق، یہ اقدام خطے میں امن و امان قائم رکھنے اور اپنے عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ جاپانی دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ صرف ایک دفاعی حکمت عملی نہیں بلکہ جاپان کی عالمی سطح پر ایک مؤثر اور ذمے دار اتحادی کے طور پر اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ ڈرونز نہ صرف جاپانی تاریخ کی یادگار ہیں بلکہ جدید جنگی حکمت عملی میں جاپان کی پیش رفت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ جاپان کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ ابتدائی طور پر 310 چھوٹے حملہ آور ڈرونز فوج میں شامل کیے جائیں گے۔ یہ ڈرونز بکتر بند گاڑیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں اور ان کی تیاری کے لیے اسرائیل، آسٹریلیا، اور اسپین سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے ماڈلز کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ تزویراتی نقطہ نگاہ سے، یہ ڈرونز جدید جنگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موزوں ہیں، جیسا کہ یوکرین تنازعے میں ڈرونز کے کلیدی کردار سے واضح ہوا۔

بین الاقوامی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام جاپان کے دفاعی بجٹ کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جاپانی حکومت نے 2025 کے مالی سال میں اس منصوبے کے لیے 3.2 بلین ین مختص کیے ہیں اور آئندہ پانچ سال میں جدید ٹیکنالوجی پر تقریباً ایک ٹریلین ین خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جاپان کے دفاعی نظام میں کامی کازے ڈرونز کی شمولیت ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ جدید ہتھیار نہ صرف جاپان کی تاریخ اور ٹیکنالوجی کے امتزاج کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات کے خلاف جاپان کی تزویراتی حکمت عملی کو بھی واضح کرتے ہیں۔

جنگ مخالف گروپس اس عمل کو جاپانی آئین کے آرٹیکل نائن کا حوالہ دیتے ہوئے ہدف تنقید بنارہے ہیں، واضح رہے کہ آرٹیکل نائن جسے امن پسندی کی شق بھی کہا جاتا ہے، جاپان کو جنگ کے حق سے دستبردار ہونے اور کسی بھی قسم کی جارحانہ فوجی تیاری سے باز رہنے کا پابند کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت جاپان کی فوجی قوت کو صرف دفاعی مقاصد تک محدود رکھا گیا ہے۔ تاہم، کامی کازے ڈرونز کی شمولیت کو اس آئینی شق کی روح کے خلاف قرار دیا جارہا ہے۔

دفاعی تیاریوں کے ان مخالف دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام جاپان کی امن پسندی کے بنیادی اصولوں سے انحراف کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے مطابق، جدید اور جارحانہ نوعیت کے ہتھیاروں کی تیاری یا حصول نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے خطے میں کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان کو ایسے اقدامات کے بجائے خطے میں امن و استحکام کے لیے سفارتی ذرائع کو فروغ دینا چاہیے۔ بعض ناقدین کے مطابق، یہ اقدامات جاپان کی دفاعی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں ملک اپنی دفاعی صلاحیتوں کو جارحانہ دفاعی اقدامات کی طرف بڑھا رہا ہے۔ ان کے بقول، کامی کازے ڈرونز جیسے ہتھیار، جو مخصوص اہداف کو تباہ کرنے کے لیے خود مختار طور پر تیار کیے گئے ہیں، دفاعی سے زیادہ جارحانہ نوعیت کے ہیں، جو آئین کے آرٹیکل نائن کی بنیادی روح کے خلاف ہیں۔

دوسری جانب اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جاپانی آئین کے آرٹیکل نائن کی حالیہ تشریح اور اس میں نرمی لانے کی کوششیں جاپان کی بدلتی ہوئی جغرافیائی اور تزویراتی ضروریات کا نتیجہ ہیں۔ ماضی قریب میں سابق وزیر ِ اعظم شنزو آبے کی قیادت میں اس آئینی شق کی نئی تشریح کا عمل شروع ہوا، جس کے تحت جاپان کو اپنی ’’کلیکٹو سیلف ڈیفنس‘‘ کی صلاحیت بڑھانے کی اجازت دی گئی۔ 2015 میں جاپانی پارلیمنٹ نے ایک متنازع قانون منظور کیا جس کے تحت جاپان کی سیلف ڈیفنس فورسز کو اتحادیوں کے دفاع میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی، حتیٰ کہ اگر خود جاپان پر حملہ نہ ہوا ہو۔ یہ اقدامات آبے حکومت کی جانب سے چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت، شمالی کوریا کے میزائل پروگرام، اور خطے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے ردعمل کے طور پر اٹھائے گئے۔ ان کا استدلال تھا کہ جاپان کو اپنی دفاعی حکمت عملی کو ان خطرات کے مطابق ڈھالنا ہوگا جو روایتی دفاعی پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس نئی تشریح نے جاپان کو جدید ہتھیاروں کی تیاری اور حصول کی طرف بڑھنے کی راہ ہموار کی، جس میں کامی کازے ڈرونز جیسے نظام بھی شامل ہیں۔ تاہم، یہ تبدیلیاں نہ صرف داخلی طور پر تنقید کا باعث بنیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جاپان کی امن پسند پالیسیوں پر سوالات اٹھائے گئے، خاص طور پر ان ممالک کی جانب سے جو جاپان کی دوبارہ عسکری قوت کو خطے کے امن کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ تنقید اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جاپان کی تزویراتی تبدیلیوں کے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر کیسے مختلف تاثرات پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ اس اقدام کے طویل مدتی اثرات پر ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔