چائلڈ کورٹ کا قیام

283

7 جنوری کو قومی اسمبلی کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے سد باب کے لیے ایک متفقہ بل منظور کیا ہے جس میں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ اسٹینڈنگ کمیٹی میں تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر نثار احمد جٹ بھی شریک تھے یہ بل اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرمین نوشین افتخار نے پیش کیا اچھی بات یہ ہے کہ برسراقتدار اور اپوزیشن کے ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ 2019 سے 2024 تک کی ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ اب تک 5120 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 1298 زیر سماعت ہیں اور 3122 کیسز بند ہوچکے۔ ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نگہت شکیل جو اس اسٹینڈنگ کمیٹی کی رکن بھی ہیں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ جو ٹرائل ہوتا ہے ان بچوں سے تکلیف دہ سوالات کیے جاتے ہیں۔ حامد میر نے اپنے کیپٹل ٹاک میں پوچھا کہ جب زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ (زارا) پہلے سے موجود ہے تو اب اس کی کیا ضرورت ہے انہوں نے جواب دیا کہ زارا کا کام ڈیٹا بیس ریکارڈ جمع کرنا اور اس کا فالو اپ کرنا جبکہ اس بل میں چھے ماہ میں فیصلہ ہوجائے گا۔ زارا اور اس میں جو فرق ہے وہ یہ کہ اس بل کے ذریعے بچوں سے جو پوچھ گچھ اور تفتیش ہوگی وہ ایک دوستانہ ماحول میں ہوگی۔ بچے کے سامنے ملزم نہیں ہوگا ایک ماہر نفسیات اور بچے کا کوئی قریبی عزیز جس سے بچہ بہت مانوس ہو وہ ساتھ میں ہو۔ نگہت شکیل صاحبہ نے یہ کہا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ اس طرح کے کیسز میں بچوں سے جو سوالات کیے جاتے ہیں اور جس طرح کیے جاتے ہیں وہ انتہائی شرمناک انداز ہوتا ہے۔ اس بل کے مطابق بچوں سے بدفعلی کی الگ سے چائلڈ کورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ نوشین افتخار نے یہ بھی بتایا کہ یہ ایک طرح سے سابقہ قوانین میں کچھ تبدیلیاں ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بل فیئر جسٹس کے حوالے سے ہے۔ یہ فوجداری ترمیمی بل کے نام سے ہے اس کے تحت وفاق کے تحت اسلام آباد میں ایک چائلڈ کورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پھر اسی طرح صوبے اپنی ضرورت کے لحاظ سے ان چائلڈ کورٹس کا قیام عمل میں لائیں گے۔

ان عدالتوں میں تربیت یافتہ جج اور مجسٹریٹ رکھے جائیں گے جو چھے ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرپرسن نوشین افتخار نے بتایا کہ اب تک ہمارے ملک میں چائلڈ ابیوز کے 6623 کیسز رجسٹر ہوئے جن میں سے صرف 200 کو سزائیں دی گئیں اس قانون کے تحت متاثرہ بچے کا میڈیکل جو پہلے اختیاری تھا اب وہ لازمی کردیا گیا ہے اور یہ میڈیکل 24 گھنٹے میں ہوگا پہلے 48 گھنٹے کا وقت تھا جس کی وجہ سے کئی طبی ثبوت کم یا ختم ہوجانے کا اندیشہ رہتا تھا۔ اس بل کے تحت متاثرہ خاندان کو قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے گی اس لیے کہ بچوں کے ریپ کے بعد خاندان کو دھمکیاں ملتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بچوں سے زیادتی یعنی ریپ کے حوالے سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ٹاک شو میں ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی کہ جنوری 2024 سے نومبر 2024 تک یعنی گیارہ ماہ میں بچوں کی ہراسگی کے 3182 کیسز رجسٹر ہوئے جس میں 528 لڑکوں کے ساتھ زیادتی اور 501 لڑکیوں کے ساتھ اور 1167 اغوا کے کیسز کے علاوہ کم عمر کی شادی کے بھی کچھ مقدمات ہیں۔ انہوں نے یہ بتایا کہ ہم نے کچھ سال قبل ایک این جی او کے ساتھ کچھ چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک معلوماتی تبادلہ خیال کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو اس حوالے سے کن لوگوں سے زیادہ خطرہ یا خوف محسوس ہوتا ہے تو اکثر بچوں نے جواب دیا کہ اپنے رشتہ داروں سے۔ جن میں چچا، ماموں، کزن، خالو، پھوپھا، نانا دادا، ڈرائیور، وین ڈرائیور بھی ہوسکتے ہیں محلے کے کچھ بدقماش لوگوں کا نمبر تو بعد میں آتا ہے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرمین نے یہ بھی بتایا کہ اس میں ہم آن لائن مقدمہ درج کرنے کا نکتہ لارہے ہیں۔ کیوں کہ اس طرح کے واقع کے بعد، یا اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے متاثرہ خاندان ایک شہر یا ملک سے چلاجاتا ہے تو ایسی صورت میں ان کا آنا مشکل ہوجاتا ہے تو ان کی ایف آئی آر آن لائن درج کی جاسکتی ہے۔

اسٹینڈنگ کمیٹی میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹرنثار احمد جٹ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک بارہ سالہ بچے کے ساتھ گن پوائنٹ پر بد فعلی کی گئی، اس کی ایف آئی آر نمبر 782/24 ہے لیکن چونکہ یہ طاقتور لوگ ہیں اس لیے ان خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم کا نام ذوالفقار ہے جو ن لیگ کے رہنما کا ہم ذلف ہے چونکہ یہ برسر اقتدار جماعت کے با اثر لوگ ہیں اس لیے ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جبکہ زینب یعنی زارا ایکٹ میں ہے کہ ایسے ملزم کو فوری گرفتار کیا جائے۔