حماس اسرائیل معاہدہ: غزہ کے بہادر عوام کو سلام

182

(پہلا حصہ)
امریکا کے نو منتخب صدر، ڈونالڈ ٹرمپ کے اس یک سطری ٹوئٹ کو دنیا بھر میں انتہائی خوشی کے ساتھ پڑھا اور دیکھا گیا جس میں انہوں نے خوش خبری دی کہ ’’مشرق وسطیٰ میں سمجھوتا ہو گیا ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی جلد شروع ہوجائے گی‘‘۔ یاد رہے صدر ٹرمپ ہی نہیں ماضی اور حال کی بیش تر امریکی انتظامیہ فلسطین کے معاملے کو یہودی ریاست کی طرف سے اہل غزہ کی نسل کشی اور غزہ کو ملیا میٹ کردینے اور قحط اور بھوک سے انسانی جانوں کے اتلاف کے حوالے سے نہیں، محض ’’اسرائیلی یر غمالیوں کی رہائی‘‘ کے تناظر میں دیکھتی ہے۔

قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں معاہدے پر اتوار 19 جنوری، صدر ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب سے ایک دن پہلے سے عمل شروع ہوجائے گا جب قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن کے بقول بندوقیں خاموش ہو جائیں گی۔ تین ماہ پر محیط اس معاہدے کے تحت اہل غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ، اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلا اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی اسیران کی رہائی شامل ہے۔ معاہدے میں غزہ میںجنگ کے بعد کی تعمیر نو کی بات بھی کی گئی جہاں 7 اکتوبر 2023 سے مسلسل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 60 فی صد سے زائد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔

معاہدے کا پہلا مرحلہ 6 ہفتوں یعنی 42 دن پر مشتمل ہوگا۔ معاہدے کے تحت غزہ میں ہر روز انسانی امداد کے تحت 600 ٹرکس کی اجازت دی جائے گی، ان میں سے 50 ایندھن لے کر جائیں گے اور 300 ٹرک شمال کے لیے مختص کیے جائیں گے۔ امداد کی ترسیل میں بڑے پیمانے پر کمی مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کی بندش کے بعد پیش آئی تھی جس کے ذریعے زیادہ تر رسد پہنچتی تھی۔

تین ہفتوں میں حماس تمام فوجی اور عام شہری خواتین، بچوں اور 50 سال سے زیادہ عمر کے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ حماس یرغمالیوں کو اس طرح رہا کرے گی کہ ہر ہفتے 3 یرغمالی رہا کیے جائیں گے جن کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ جنگ بندی کے پہلے روز حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تین افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل ہر یرغمال یہودی کے بدلے 30 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کی رہائی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ ان میں وہ فلسطینی بھی شامل ہیں جو اسرائیل کی جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو پہلے رہا کیا جائے گا اور اس کے بعد مردہ یرغمالیوں کی باقیات حوالے کردی جائیں گی۔

اسرائیل کا ماننا ہے کہ یرغمالیوں میں سے زیادہ تر زندہ ہیں لیکن حماس کی جانب سے ان کے بارے میں کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں میں سے 94 غزہ میں موجود ہیں جن میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔ چار اسرائیلی ایسے بھی ہیں جنہیں جنگ سے پہلے اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے دو ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنگ بندی کے ساتویں دن یعنی 25 جنوری کو بے گھر فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں اپنے گھر جانے کی اجازت مل جائے گی۔ جنگ بندی کے 16 ویں دن اسرائیل اور حماس امن منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر مذاکرات شروع کریں گے۔ اس میں 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی واپسی شامل ہو گی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا مکمل ہوجائے گا اور شمالی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی بھی شروع ہو جائے گی۔

اگر چیزیں منصوبے کے مطابق چلتی رہیں تو چھے ہفتے بعد یکم مارچ کو دوسرے مرحلے کا آغاز ہو جائے گا۔ نو مارچ کو اسرائیل کو فلاڈیلفی سے اپنی افواج کا انخلا بھی مکمل کرنا ہوگا جو غزہ کو مصر سے الگ کرتی ہے۔ یہ شق مصر کے اصرار پر رکھی گئی ہے جس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس راستے سے فلسطین کو اسلحے کی سپلائی نہیں ہونے دے گا۔

12 اپریل کو معاہدے کا تیسرا مرحلہ شروع ہو جائے گا جس کی تفصیلات ابھی واضح نہیں ہیں۔ فی الحال اس بات پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام کون سنبھالے گا۔ امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کے ایک اصلاحی ورژن پر زور دیا ہے۔ اسرائیل جس سے اتفاق نہیں کرتا۔

اس کے باوجود کہ اسرائیل جنگ بندی کے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور نہیں کہا جاسکتا کہ اس معاہدے میں بھی ایسا ہی ہو لیکن معاہدے کے بعد اہل غزہ جشن کی حالت میں ہیں۔ پورے غزہ میں خوشی کا عالم ہے۔ تل ابیب کے عوام بھی اطمینان کا اظہار کررہے ہیں لیکن حکمران طبقہ اس معاہدے سے نا خوش نظر آرہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اسے یرغمالیوں کی خاطر زہر کا پیالہ پینے سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کے انتہائی دائیں بازو کے ساتھیوں نے معاہدے کی حمایت سے انکار کردیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ کے اہم رکن اور وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ اس معاہدے کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے تک پکار پکار کر کہتے رہے، ’’یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے تباہی ہو گا‘‘۔ اسرائیل کے وزیر برائے داخلہ امور اور نیتن یاہو کابینہ کے اہم وزیر اتیمار بین گویر، نیتن یاہو کو 15 جنوری کی صبح تک خبردار کرتے رہے کہ ’’حماس کے ساتھ معاہدہ نہ کیا جائے۔ اگر معاہدہ کیا تو حکومت سے الگ ہو جاؤں گا‘‘۔ اس صورت میں ممکن ہوسکتا تھا کہ نیتن یاہو کی حکومت تحلیل ہوجاتی لیکن چند دوسرے ارکان نے وزیراعظم یاہو کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

13 جنوری کو دائیں بازو کے ایک سرخیل چینل 14 پر ایک پروگرام میں، ڈونالڈ ٹرمپ کے بہت بڑے حمایتی یہودی سٹپٹا رہے تھے کہ ٹرمپ نے ہمیں بہت برا سرپرائز دیا ہے۔ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ویسٹ بینک کو اسرائیل کا مستقل حصہ بنانے میں ہماری مدد کریں گے لیکن اس کے برعکس یہ ہورہا ہے کہ وہ بیس جنوری سے پہلے پہلے حماس سے معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔

اسرائیلی اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہورہی ہیں کہ نیتن یاہو نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد پھر لڑائی شروع کردیں گے۔ یا پھر یہ کہ معاہدے کا مقصد صدر ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں نیتن یاہو کی شرکت کو یقینی بنانا اور ان سے اپنائیت کا اظہار کرنا، اپنے ساتھ رکھنا اور یہ یقین دلانا ہے کہ ان کی ڈیڈ لائن کی تکمیل کے لیے اسرائیل نے یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔

معاہدہ کیسے ممکن ہوا؟ جب کہ صدر ٹرمپ کی نومنتخب کابینہ میں اکثریت انتہائی متعصب یہود اور اسرائیل نواز وزراء کی ہے۔ جن کی موجودگی میں ممکن ہی نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات میں کوئی ایسی بات شامل ہو جو یہودیوں کی ناراضی اور حماس کے فائدے میں جاسکے۔ ان کے وزیر خارجہ مارکو روبیو اسرائیل کے کٹر حمایتی ہیں۔ سالِ رواں کے اوائل میں مارکو روبیو نے کہا تھا کہ ’’میں غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کبھی نہیں کروں گا اور میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیل کو حماس مکمل طور پر ختم کردینا چاہیے۔ حماس کے لوگ زہریلے جانور ہیں‘‘۔ ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے امریکی سفیر کے طور پر ارکنسا کے سابق گورنر اور اسرائیل کے کٹر حامی مائیک ہکیبی کو منتخب کیا ہے جو غربِ اردن پر اسرائیلی قبضے کے حامی ہیں اور کہتے ہیں کہ دو ریاستی نظریہ کسی بھی طور قابل ِ عمل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو پھر کیوں اس معاہدے پر رضامند ہوئے؟؟ ،(جاری ہے)