استاد کی تذلیل معاشرے کی تباہی

218

ایک استاد محترم کی تصویر سوشل میڈیا پر دیکھ کر دلی دُکھ ہوا کہ استاد ہتھکڑی میں جکڑا ہوا ہے اور اس کا بدبخت شاگرد جس کو وہ علم و شعور سے آشنا کرنے اور ترقی و کمال کے مدارج طے کرانے کے لیے سعی کرتا ہے اُس طالب علم کا غصہ عروج پر ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے میرے استاد نے مارا ہے اس کو سخت سزا دی جائے کم سے کم اس کا تبادلہ کیا جائے۔ اور یوں علم کی روشنی اس ذلت آمیز روش سے سندھ میں ٹمٹا رہی ہے، استاد جس رتبہ سندھ میں ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہوا کرتا تھا کہا جاتا تھا ماں باپ اولاد کو زمین پر لاتے ہیں تو استاد ان کو علم سے آشنا کرکے آسمان تک لے جاتا ہے اس میں کوئی دورائے بھی نہیں ہے۔ آدمی انسان جب ہی بنتا ہے جب وہ علم سے آراستہ ہوجاتا ہے۔ دنیاوی ترقی ہو یا اخروی نجات کا معاملہ یہ استاد کی محنت شاقہ ہی اس کی راہ پہ گامزن کرتی ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ جس نے ایک لفظ سکھایا اس نے غلام بنالیا اس کی مرضی وہ غلام رکھے یا آزاد کرے، ایسی متبرک ہستی استاد کو ہتھکڑی لگا دیکھ کر صرف اس الزام پر کہ اس نے اپنے شاگرد کو مار پیٹ کی یوں رسوا کرنا علم کا نوحہ ہے۔

جناب لقمان کے معروف اقوال میں ہے کہ بچے کو مارنا ایسا ہے جیسی فصل کو کھاد جس کا بروقت استعمال جلا بخشتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر عالم انسان کے محسن منبع شریعت نبی اکرمؐ کا فرماں مبارک ہے کہ جو بچہ دس سال کا ہوجائے تو اُس کو سختی سے نماز پڑھائو، استاد مار اور پیار دونوں کو استعمال میں لائے جیسے کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ سات سال کی عمر کے بچے کو پیار سے نماز کی طرف راغب کرے، وہ دن بھی ہوا کرتے تھے کہ شاگرد اسکول میں استاد کے ہاتھوں پٹائی کی بات گھر آکر والدین کو کرتا تو مزید مار اس شکایت کی ملا کرتی تھی یوں مار اور پیار کا معیار تعلیم اتنا شاندار ہے کہ اب کہا جاتا ہے کہ اس دور کا میٹرک پاس آج کل کی ماسٹر ڈگری سے بھی اچھے معیار تعلیم کا حامل ہے یہ حقیقت بھی ہے۔ اس وقت استاد اولاد کی طرح شاگرد کو پڑھایا کرتے تھے، ٹیوشن کی ہوس نہ تھی اور نہ ہی نقل کی چھوٹ اور پھر ایسی نسل تیار ہوتی تھی جو تعلیم کے ساتھ تربیت سے آراستہ، اب معاشرہ جو تباہی کی طرف گامزن ہے اس کا بڑا سبب اک یہ بھی ہے کہ استاد کو سختی کرنے کا کوئی حق نہیں اگر وہ کرے گا تو ہتھکڑی لگے گی سو اب سندھ میں اساتذہ میں یہ جملہ عام ہوتا جارہا ہے کہ ’’پڑھو نہ پڑھو پگھار ہماری کھڑی‘‘۔ اب رٹا کلچر ہے ایک شاگرد کھڑا ہو کر ایک جملہ پڑھتا ہے اور تمام شاگرد کورس کے انداز میں دہراتے ہیں اور انہیں لفظوں کی شناخت تک نہیں ہوتی نہ ہی جملہ کی پہچان کر وہ کیا پڑھ رہے ہیں اب تعلیم کا نظام میک اپ زدہ ہوگیا۔ بھاری فیسوں، خوب صورت ڈریس، چمکیلا شناختی کارڈ کا قلاوہ، اچھل کود، پروگرامات لاحاصل کی بھرمار سے بچوں کا دل بہلانا ہی مقصد تعلیم قرار پایا ہے۔ ہوم ورک اول تو ملتا ہی نہیں، کچھ استاد دیتے ہیں تو شاگرد اُن کے پاس ٹیوشن پڑھ کر یہ ہوم ورک مکمل کرتے ہیں۔ کہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا اسکولوں میں انتظام ہوا کرتا تھا کہ بڑوں کے ادب، چلنے پھرنے کے آداب، کھانے بیٹھنے کے اطوار سب ذہن نشین کرائے جاتے تھے، اب رونا ہے معاشرے کا کہ نئی نسل بگڑ کر دھول ہوتی جارہی ہے۔ درس گاہوں سے فارغ ہونے والے والدین کے حقوق و احترام سے عاری ہورہے ہیں۔ تو بات پھر یہی ہے کہ علم پڑھانے، تربیت کرنے والے استاد کو سرزنش کرنے کے جرم میں اگر والدین ہتھکڑی کا اہتمام کریں گے تو ان کے حقوق بھی نئی تربیت یافتہ نسل کے ہاتھوں پابند سلاسل ہوں گے۔

اساتذہ کی تذلیل علم کی توہین ہے اور پھر میڈیا پر تشہیر نسل کی تباہی ہے۔ جرمنی میں اساتذہ کی عزت و توقیر کا یہ عالم ہے کہ سب سے زیادہ تنخواہ اساتذہ کی ہوتی ہے، ملک کے وزرا، رکن پارلیمنٹ نے احتجاج کیا کہ ہماری تنخواہ بڑھ کر ہونی چاہیے تو جرمنی کی حکمراں نے خوب صورت جواب دیا کہ جو اساتذہ حکمراں، وزرا، ماہرین بناتے ہیں اُن سے زیادہ دوسرے اس کے حقدار کیسے ہوسکتے ہیں، یوں ہی جرمنی جنگ عظیم کی تباہی و بربادی کے بعد پھر دنیا میں اپنا مقام بنا گیا۔ اساتذہ کی بے قدری تباہی کا آغاز ہے۔