شہزادی ریاست خاتون

287

میں: لگتا ہے آج پھر کوئی کہانی سنانا چاہ رہے ہو۔۔۔
وہ: ہاں اور یہ کہانی تمہیں تمہارا بچپن پھر سے یاد دلادے گی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ۔۔۔

میں: اتنی جلدی کیا ہے کہانی سنانے کی میری بات تو پوری ہونے دو، عنوان پڑھ کر تو مجھے بچپن کی نہ جانے کتنی ہی کہانیاں یاد آگئیں۔ خاص طور پر الف لیلہ کی وہ کہانیاں جن میں ایک شہزادہ اور شہزادی ہوتے تھے، شہزادی کو جن اٹھاکے لے جاتا تھا اور شہزادہ اپنے زور ِبازو اور جوشِ ایمانی پر بھروسا کرتے ہوئے تن تنہا شہزادی کو بچانے نکل جاتا، راستے میں آبادی سے دور کسی جھونپڑی میں مصروف ِ عبادت ایک باریش بزرگ اسے ایک لاکٹ یا انگوٹھی تھما دیتے یا کوئی اسم اعظم بتادیتے جو شہزادے کو اُس شیطان صفت جن کے شر سے محفوظ رکھنے میں ڈھال کا کردار ادا کرتا تھا۔ شہزادہ نہ جانے کتنے جتن کرکے اونچی نیچی گھاٹیوں اور جنگل بیانوں سے ہوتا ہوا بالآخر شہزادی کو جن کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہوجاتا تھا اور تقریباً تمام ہی کہانیوں کا اختتام اسی ایک جملے پر ہوتا تھا۔ ’شہزادہ اور شہزادی خیریت سے اپنے محل واپس آگئے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘۔

لیکن اس سے پہلے کہ تم اپنی کہانی سنائو میرے ذہن میں ایک بات آرہی ہے کہ تمہیں نہیں لگتا کہ ریاست خاتون نامی ایک شہزادی کو بھی ایک جن اٹھاکے لے گیا ہے، برسوں سے وہ اسی کی قید میں ہے اور شہزادہ ہے کہ اس کی مدد کو پہنچ ہی نہیں پارہا؟ کیا اس بار شہزادہ بہت بزدل واقع ہوا ہے؟

وہ: ہاں لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے لیکن اگر تم غور کرو تو شہزادے کا اتنا قصور نہیںکیوں کہ جب شہزادی ریاست خاتون کا اغوا ہوا یا جب اسے جن نے دن دہاڑے اٹھالیا تو اس وقت تو اس کی عمر گیارہ یا بارہ سال کے لگ بھگ ہی تھی یعنی وہ اس خطرناک جن کی قید میں ہی اپنے پورے شباب کو پہنچی۔ اگر حساب لگائو تو، اب وہ کم وبیش ۸۰ سال کے قریب ہوگئی ہوگی، اور شہزادہ بھی چوں کہ اسی جدید دور کا ہے جس میں ہر انسان کو صرف اپنی ذات اور اپنے مفاد سے سروکار ہے، اس نے سوچا ہوگا کہ بھاڑ میں جائے ریاست خاتون اور مجھے کون سا اس سے کوئی عشق ہوا ہے جو اس کو چھڑانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالوں یا اس کے انتظار میں اپنی ساری عمر گنوادوں۔ اور اس بڑھاپے میں اگر مجھے وہ مل بھی گئی تو سوائے اس کی خدمت کے دوسرا کوئی فیض تو پا نہیں سکوں گا اس سے۔

میں: لیکن جہاں تک میرا حافظہ میرا ساتھ دے رہا ہے شہزادہ تو اپنی شہزادی سے بہت محبت کرتا تھا، جب ہی تو اُس نے بڑی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد شہزادی کو سابقہ جن سے آزاد کراکے اسے ایک نئی زندگی کا تحفہ دیا تھا۔ جبکہ وہ والا جن تو اس موجودہ جن کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیوہیکل اور قوی تھا اور اس کے قبضے میں تو ریاست خاتون جیسی نہ جانے کتنی شہزادیاں اور بھی تھیں۔ پھر اس نے اس بار اپنی جان سے عزیز ریاست خاتون کو اس طاقتور جن سے کیوں نجات نہیں دلائی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شہزادے نے کوشش کی ہو لیکن رستے میں اسے کہیں کسی جھونپڑی میں کوئی عبادت گزار بوڑھا ہی نہ ملا ہو؟ جو اسے کوئی جادوئی منتر یا اسم اعظم وغیرہ بتادیتا جو شہزادی کو اُس خطرناک جن کی قید سے چھڑانے میں اس کے کام آجاتا۔

وہ: مگر میری یادداشت کے مطابق پہلے والے جن کی قید سے چھڑانے کی جدوجہد کے دوران شہزادے کو ایک بوڑھا ملا تھا، جس کی رہنمائی اور مدد سے وہ شہزادی ریاست خاتون کو آزاد کرانے میں بحسن وخوبی کامیاب ہوگیا تھا۔ بس وہ بوڑھا رہنما چہرے مہرے سے عبادت گزار دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اس کا دل ایمان کی روشنی سے منور تھا، جسے اس نے اپنے اقوال اور اصولوں پر مبنی طرزِ زندگی سے ثابت بھی کرکے دکھایا۔

میں: لیکن میرے خیال سے ہمیں اس پہلو کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر دور ایک سانہیں ہوتا حالات کے بدلنے سے اس دور کے تقاضے بھی بدل جاتے ہی۔ اگر شہزادہ کسی مصلحت، معاشی مجبوری یا کسی نفسیاتی دبائو کی وجہ سے شہزادی کو جن کی قید سے چھڑوانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا تو ہر ذی شعور کو مل بیٹھ کر مظلوم شہزادی کو اس مسلسل جبر اور ظلم و زیادتی سے ہر صورت آزاد کرانا چاہیے۔

وہ: پر مجھے ایک خوف ابھی بھی چین نہیں لینے دے رہا کہ اگر کسی طرح شہزادی ریاست خاتون کو جن کی قید سے آزاد کرانے کی کوئی سبیل نکل بھی آئی تو کیا شہزادی کو یاد ہوگا کہ وہ کون ہے اور اسے اتنے برسوں تک کس ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی، کیا وہ اپنے اصل مقصد وجود سے آشنا رہی ہوگی۔ کیا تمہیں نہیں لگتا اس پر اس عرصے میں کیسے کیسے ستم ڈھائے گئے ہوں گے نہ جانے کس کس طرح کے انجکشن اس کے جسم میں اُتارے گئے ہوں گے، اس کے کھانے میں جانے کون کون سی زہر آلود غذائیں شامل کی گئی ہوں گی، جس نے اس کے وجود اور دل ودماغ کو ہر زاویے سے ہلا کے رکھ دیا ہوگا۔

میں: تمہارا اندیشہ اور خوف بالکل درست ہے کیوں کہ ا تنی طویل قید کے دوران اُس خطرناک جن نے باری باری اور الگ الگ پے رول پہ رکھے گئے ملازمین کے ذریعے ریاست خاتون کی جو درگت بنائی ہوگی شہزادی کے لیے اس کے بھیانک اثرات سے نکلنا قطعی آسان نہیں ہوگا۔ لیکن تمہارے منہ میں گھی شکر، اگر شہزادی کو جن کی قید سے کسی بھی طرح آزاد کرالیا گیا تو پھر اس کا خیال رکھنے اور اس کی ہر لحاظ سے حفاظت کی ذمے داری پورے سماج کو اپنی جان پر کھیل کے پوری کرنی ہوگی۔ یقینا برسوں قید کے اندھیروں، گھٹن اور تعفن کے ماحول میں رہنے کے بعد کھلی آنکھوں سے نیلے آسمان کو دیکھنا اور ایک خوشگوار فضا میں سانس لینا شہزادی ریاست خاتون کے لیے زندگی کا سب سے پرمسرت اور حیران کن لمحہ ہوگا۔

وہ: لیکن حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے جن کے چنگل سے شہزادی کی آزادی محض ایک خوش فہمی اور خام خیالی سے زیادہ نہیں ہے کیوں کہ جن ذی شعوروں سے تم ریاست خاتون کی رہائی کی امید لگا رہے ہو ان کو تو اتنا شعور بھی نہیں کہ وہ گزشتہ کئی عشروں سے کسی جن کی قید میں ہے۔ اور اب تو جن نے حالات پر اپنا کنٹرول اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ پے رول پہ رکھے گئے ملازمین کی وفاداری بھی ہر شک وشبہ سے بالاتر ہوگئی ہے۔

میں: معذرت میرے بھائی تمہاری آج کی کہانی تو ریاست کی بے بسی کی نذر ہوگئی۔

وہ: کوئی بات نہیں وہ کہانی پھر کبھی سہی میرے خیال سے شہزادی ریاست خاتون کو جن کی قید سے بلا تاخیر رہائی دلانا میری کہانی سے زیادہ ضروری اور ناگزیر ہے۔ اگر اب بھی اس مجبور شہزادی کی آزادی کے لیے کوئی تدبیر نہ کی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو اس کی آہ و فریاد، کیا جنگل کیا شہر سب ہی کچھ نیست ونابود کرڈالے۔ جاتے جاتے ایک اور فی البدیہہ قِطعہ سنتے جائو۔ؔ

گھر سے آسیب کا سایہ جائے
کس طرح جن کو بھگایا جائے
آئو مل کوئی تدبیر کریں
نیند سے خود کو جگایا جائے