حساسیت ہی معاشرتی مسائل اجاگر کرنے میں مدد دیتی ہے

154

نسرین گل
زمانہ طالب علمی میں ہی اپنے مستقبل کی راہوں کاتعین کرکے کامیابیاں سمیٹنے اور اردو وسرائیکی ادب میں نماں مقام پانے والی ہر دلعزیز شخصیت محترمہ رضوانہ تبسم درانی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ممتاز شاعرہ، نثر نگار، صحافی، براڈ کاسٹر اور سماجی کارکن رضوانہ کوثر کا قلمی نام رضوانہ تبسم درانی ہے. جنوبی پنجاب(وسیب )کے علاقے ڈیرہ غازی خان میں جنم لینے والی رضوانہ کوثر نے زمانہ طالب علمی میں ہی ادبی سرگرمیاں شروع کردی تھیں،. چھٹی کلاس سے مقامی اخبارات میں لکھنے اور پھر مقامی اخبار میں نمائندگی کرنے کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی آغاز کیا. اپنے والد محترم کی حوصلہ افزائی اور سپورٹ سے کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد مزید آگے بڑھنے کیلئے ڈیرہ غازی خان سے ہجرت کرکے ملتان کو اپنا مسکن بنایا. میٹرک کے بعد شادی کے بندھن میں بندھنے کے باوجود تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا. ایم اے اردو اور ایم اے سرائیکی کرنے کے بعد فی الوقت ایم فل کی طالبہ ہیں. ریڈیو پاکستان میں بطور براڈ کاسٹر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جبکہ شاعری اور نثر نگاری میں اپنا ایک نمایاں مقام بنایا.رضوانہ تبسم درانی کی چار تصانیف میں ً ً محبت جستجو ہے، چیڑاں چیڑاں ونگ، تبسم دے ڈوہڑے اور کونج چنانہہ دچنانہہ فاصلے، اردو شاعری وحشتیں دل کی، سرائیکی افسانے سکے پتریں دا ڈسکار اور وچھڑے یاد جو آئے ہوسن زیر طباعت ہیں.رضوانہ تبسم درانی کی ریڈیو، ٹی وی اور علمی وادبی محافل میں شمولیت اور اپنے فن کے جوہر دکھانے کی ایک طویل داستان ہے، ان کی شاعری و نثرگاری بالخصوص گیتوں میں سیپب و نگینے جڑے ہونے کے ساتھ معاشرتی مسائل کی بھی نشاندہی ہوتی ہے.محترمہ رضوانہ تبسم درانی ادب کے میدان میں نمایاں مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ عالمی شناخت کی حامل ایک سرگرم سوشل ورکر بھی ہیں. دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے رشیدہ بیگم ویلفیئر ٹرسٹ کی چیئرپرسن ہونے کے علاوہ انٹر نیشنل روٹری کلب ملتان چناب کی صدر رہ چکی ہیں جبکہ انرویل کلب مڈ ٹاؤن ملتان کی تین بار چیئرمین بننے کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں. علمی، ادبی اور سماجی خدمات پر رضوانہ تبسم درانی کو انٹرنیشنل گولڈ ٹیک ایوارڈ سمیت 100 سے زائد ایوارڈز واعزازات سے نوازا گیا ہے.

گزشتہ دنوں اردو اور اور دیگر زطانوں کی ممتاز شاعرہ، ادیبہ، براڈ کاسٹر اور سوشل ورکر محترمہ رضوانہ تبسم درانی سے خصوصی گفتگو ہوئی. ایک سوال کے جواب میں رضوانہ تبسم درانی نے بتایا کہ سب سے پہلے اردو میں شاعری کی، میرا مجموعہ کلام محبت جستجو ہے کو بے حد پذیرائی ملی اور مجھے بیسٹ بک کے ایوارڈ سے نوازا گیا. انہوں نے مزید بتایا کہ ملتان اپنے شوہر کے ساتھ شفٹ ہوئی تو میرے لیے اسانی ہو گئی، ریڈیو پاکستان پہ جانا، پروگرام کرنا، لکھنا روز مرہ کا معمول بن گیا. ادبی وفنی شعبوں سے وابستگی پچھلے 30 برسوں سے ہے، میں نے ہر شعبے میں کام کیا، میں ریڈیو پاکستان میں میوزک پروڈیوسر بھی رہی۔ الحمدللہ یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 60 سے زیادہ گیت میرے ریڈیو پر ریکارڈ ہو کر دنیا بھر میں سنے جارہے ہیں. اہنے کیریئر کے حوالے سے رضوانہ تبسم درانی نے بتایا کہ کوئی عورت ہو یا پھر مرد جہدِ مسلسل کے نتیجے میں کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں، جس کیلئے ثابت قدم رہنا اور منفی رجحانات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آپ ہر میدان میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور پھر بھر پور مواقع میسر بھی آتے ہیں، جن سے استفادہ کرنا آپ کی صلاحیتوں پر منحصر ہوتاہے. رضوانہ درانی کا کہنا تھا کہ لگن، جستجو اور جدوجہد سے آپ سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں، ایک عورت زاد کیلئے مواقع بے شک محدود ہیں لیکن ٹیلنٹ اپنی جگہ بنا ہی لیتا ہے. نئے لکھنے والوں کیلئے رضوانہ تبسم درانی کا کہنا تھا کہ شاعری ہو یا نثر نگاری مکمل کمٹمنٹ ضروری ہے، معاشرتی مسائل کو قریب سے پرکھنا، ان کا احاطہ کرنا پھر انھیں لفظوں میں ڈھالنے کا فن رب العزت کی جانب سے عطا کردہ نعمت ہوتی ہے اور یہ نعمت ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی، اس کیلئے ریاضت اور مسلسل ریاضت ناگزیر ہے. آخر میں انہوں نے کہا کہ نئے شاعروں اور ادیبوں کو چاہیئے کہ شہری علاقوں سے نکل کر دور دراز کے پسماندہ علاقوں کے معاشرتی مسائل کااحاطہ کریں اور اپنی شاعری و نثر میں ان سلگتے مسائل کو موضوع بنائیں.