انٹربورڈ میں گزشتہ سال بے ضابطگیوں کے ذمے داروں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟منعم ظفر

159

کراچی:امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے انٹر سالِ اوّل کے حالیہ متنازع نتائج اور ان میں سنگین بے ضابطگیوں کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو خط ارسال کیا ہے اور استفسار کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ جواب دیں کہ گزشتہ سال کی تحقیقاتی رپورٹ میں جن لوگوں کو بے ضابطگیوں کاذمہ دار قرار دیا گیا تھا آج وہ ترقی پا کر دوبارہ انٹر بورڈ میں اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں،ایک سال کے دوران ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے بجائے انہیں ترقی کیوں دی گئی؟

منعم ظفر نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے ہزاروں طلبہ و طالبات کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کا ازالہ اور ان کے تعلیمی مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جائے۔ گزشتہ سال این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی 15 فروری 2024 کی تحقیقاتی رپورٹ میں بے ضا بطگی کے مرتکب افراد کوفوری طور پر بر طرف کر کے ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔

انہوں نے خط میں کہا کہ چیئر مین انٹر بورڈ کی قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی(6 جنوری 2025) کو فوری طور پر تحلیل کر کے کراچی کی جامعات کے سینئر پروفیسرز، اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین تعلیم پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے‘جو اس سال امتحانی عمل میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیق کے بعد ذمہ داروں کا تعین کرے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

منعم ظفر خان نے مزید کہا کہ نئی تحقیقاتی کمیٹی کارروائی کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے عمل میں اُمیدوار کے والدین یا اساتذہ کی موجودگی کو بھی یقینی بنائے اور اس عمل میں شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے جلد از جلد یہ کام مکمل کیاجائے۔موجودہ صورتحال ہزاروں طلباء اور ان کے والدین کے لیے نہ صرف سخت اذیت کا سبب بنی ہوئی ہے بلکہ ان طلبہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے جو شاندار تعلیمی کیرئیر رکھتے ہیں۔

منعم ظفر خان نے اپنے خط کے ساتھ گزشتہ سال کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی کاپی اور دیگر دستاویزات بھی منسلک کی ہیں۔ خط میں انہوں نے مزید کہا ہے کہ کراچی انٹر میڈیٹ بورڈ میں ایک سال میں پانچ چیئر مین تبدیل کیے جاچکے ہیں،موجودہ چیئر مین شرف علی شاہ نے ایک12 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان کیا‘ جس کے کنونیئر ڈپٹی کنٹرولر امتحانات کے قریبی عزیز ہیں، جو پہلے آئی ٹی منیجر کمپیوٹر سیکشن تھے اور گزشتہ سال کی رپورٹ میں ان کو ان کی ذمہ داری سے فوری طور پر سبکدوش کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اسی طرح زرینہ راشد جو موجودہ کنٹرولر ایگزامینیشن ہیں،پہلے ڈپٹی کنٹر ولر ایگزامنیشن تھیں کو بھی اسی رپورٹ میں مفرور (Absconder) قرار دیا گیا تھا،یہ کس طرح ممکن ہے کہ گزشتہ رپورٹ میں جن لوگوں کو بر اہ ر است بے ضابطگیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھاانہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دیا گیا۔

منعم ظفر خان نے کہا کہ 2024 کے انٹر کے امتحانات اور اس کے نتائج میں ایک مرتبہ پھر شدید بے ضابطگی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں طلبہ وطالبات اور والدین میں نہ صرف بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ کراچی کے امتحانی نظام پر عدم اطمینان بھی پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بھی اسی طرح کی صورتحال کے باعث نگراں حکومت کے وزیر اعلی جسٹس (ریٹائرڈ) مقبول باقر نے ایک اعلیٰ اختیاراتی (facts and finding committee)تشکیل دی تھی، جس کے سربراہ وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی ڈاکٹر سروش حشمت لودھی اور ممبر ان میں ڈاکٹر ایس اکبر زیدی، معین الدین صدیقی، صفی احمد زکائی تھے۔اس تحقیقاتی کمیٹی نے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ سے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا اور نہ صرف ان عوامل کا جائزہ لیا بلکہ ساتھ ہی ان وجوہات کی نشاندہی بھی کی جو کہ خرابی کا باعث بنیں۔

خط میں وزیراعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مراد علی شاہ صاحب! یونیورسٹیز اور تعلیمی بورڈز کی وزارت اس وقت آپ کے پاس براہ راست ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے جو رپورٹ 15 فروری 2024 میں پیش کی اور اس میں جن لوگوں کو مور و الزام ٹھہرا یا گیا،انہیں آئندہ بورڈ میں کسی بھی ذمہ داری کے لیے نا اہل قرار دیا گیا وہی لوگ ایک سال کے عرصے میں مزید ترقی پا کر دو بارہ بورڈ کے امتحانی عمل ونتائج اور بے ضابطگی میں براہ ِ راست ملوث پائے گئے ہیں اور ایک بار پھر کراچی کے طلبہ وطالبات اپنے والدین کے ہمراہ سڑکوں پر موجود ہیں اور اپنے مستقبل اور نتائج کے حوالے سے سخت پریشان اور ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں۔