اسرائیل نے باضابطہ طور پر بتایا ہے کہ حماس نے جن اسرائلیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اُن کا پہلا گروپ اتوار کو رہا کیا جائے گا۔ یہ بات اسرائیل کے وزیرِاعظم کے دفتر نے ایک بیان میں بتائی ہے۔
اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے اس تبادلے سے غزہ میں پندرہ ماہ سے جاری لڑائی کے رکنے کا امکان ہے۔ اس لڑائی میں اب حزب اللہ اور یمن کی حوثی ملیشیا کے علاوہ عراق کے چند عسکریت پسند گروپ بھی شامل ہیں۔ اسرائیل اور غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کو فلسطینی قیدیوں کے عوض رہا کیا جائے گا۔ یرغمالیوں میں اسرائیل کی تین خواتین فوجی بھی شامل ہیں۔ ایک خاتون کے عوض پچاس فلسطینی رہائی پائیں گے۔
غزہ میں فی الحال ڈیڑھ ماہ کی جنگ بندی کی بات ہوئی ہے۔ مزید مذاکرات کے ذریعے لڑائی مکمل طور پر ختم کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ جنگ بندی کے دوران عالمی امداد فلسطینیوں تک پہنچنے دی جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان آمد و رفت پر پابندی ختم کردی جائے گی۔ غزہ پر اسرائیلی فوج کی بمباری اور گولا باری کے نتیجے میں 46 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں اور 23 لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے ہیں۔ غزہ کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔
غزہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تعمیرِنو اور آباد کاری کا ہے۔ زخمیوں کا علاج بھی ایک دشوار مرحلہ ہے جس سے غزہ کی انتظامیہ کو گزرنا ہے۔ غزہ کی جنگ نے غیر معمولی وسعت اختیار کی جس میں حزب اللہ کے علاوہ حوثی ملیشیا اور عراق کے چند عسکریت پسند گروپ بھی شامل ہوئے۔