سوال: عورتوں کے بال کٹوانے پر رہنمائی فرمائیے؟ برعظیم پاک و ہند کے علما اس کو درست نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کا اس کے جواز میں فتویٰ موجود ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے کہ اگر کوئی عورت شرعی پردہ کرتی ہو لیکن صرف اپنی یا اپنے شوہر کی خوشی کے لیے اپنے بالوں کو کٹوائے تو کیا یہ جائز ہوگا یا دوسروں پر بْرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے؟
بالوں کو رنگوانے کے متعلق بھی وضاحت فرما دیجیے کہ آیا صرف اپنے یا شوہر کے شوق کی خاطر بالوں کو رنگوایا یا بلیچ کروایا جاسکتا ہے، جب کہ عورت شرعی پردے کا خیال رکھتی ہو؟ کیا ہم کسی ایسی کارکن یا داعی کے محاسبے کا حق رکھتے ہیں؟
جواب: بال کٹوانے پر اگر شیخ عبدالعزیز بن باز مرحوم نے اور شیخ یوسف القرضاوی نے فتویٰ دیا ہے تو میری معلومات کی حد تک اس کی واضح دلیل اس اصول میں ہے جس میں ایک بڑی بْرائی سے بچنے کے لیے کم تر کا اختیار کرنا مصلحت دینی ہے۔ اگر ایک شوہر اور اس کی بیوی یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کے بال ترشے ہوئے ہوں تو ذاتی پسند و ناپسند سے قطع نظر اسے ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔ جس بات کی ممانعت ہے وہ بالوں میں بال جوڑنے کی ہے بالوں کو کاٹنے کی نہیں۔
دوسری جانب یہ بات کہ اس طرح مرد اور عورت کا تشخص ختم ہوجاتا ہے اس وقت قوی ہے جب ایک مسلمان خاتون بال کٹوا کر سر کھول کر بازاروں میں پھر رہی ہو۔ اگر ایک بیوی اپنے شوہر کی خواہش کی بنا پر بال تراش کر [وہ جس طرح کے بھی ہوں] اس کے سامنے آتی ہے اور جب باہر جاتی ہے تو اس کا سر اور تمام جسم ڈھکا ہوا ہے تو اس میں معاشرے کو کیا خطرہ ہے؟ کیا وہ معاشرے میں مشابہت کی تشہیر کر رہی ہے؟ ہاں، اگر کوئی عورت بال کٹوا کر سر کھول کر سب کے سامنے پھرتی ہے تو مشابہت سے زیادہ یہ رسولؐ کی دی ہوئی شریعت کی مخالفت ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ حجاب، یعنی سر ڈھانک کر باہر نکلے۔ شرعی پردے کو نبی کریمؐ کی اس حدیث نے قیامت تک کے لیے متعین کردیا جس میں آپؐ سیدہ عائشہؓ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان بچی بالغ ہوجائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ اس میں بالوں کی سیٹنگ کہیں آس پاس نہیں آتی کیونکہ جب سر مکمل طور پر ڈھک گیا تو حجاب کے اندر بال لمبے ہوں یا چھوٹے، اس سے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
بال رنگوانے کے بارے میں یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ مہندی یا حنا کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں کی گئی۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر ایک خاتون اپنے بالوں کو اس لیے رنگین کرتی ہے کہ اس کا شوہر اسے پسند کرتا ہے تو اس کی مثال وہی ہے جو اس سے قبل بالوں کی تراش کے بارے میں عرض کی گئی۔ آپ نے یہاں بھی شرعی پردے کا ذکر کیا ہے۔ جب تک ایک خاتون چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھانکے ہوئے ہے، وہ بہت سے کام اس وقت تک کرسکتی ہے جب تک اس کام کی ممانعت ثابت نہ ہوجائے۔ شریعت کا اصول ہے اصلاً ہر فعل مباح ہے جب تک اس کی حْرمت ثابت نہ ہو۔ یہاں پر یاد رکھیے اسلام میں حلال و حرام واضح ہیں لیکن بعض چیزیں انسان کی فطرت کا مطالبہ ہیں۔ ایک خاتون کی خوب صورتی کے اجزا میں اس کے بالوں کا لمبا ہونا مسلم دنیا میں ہی نہیں، قدیم ترین تہذیبوں کا حصہ رہا ہے لیکن اس بنا پر شدت کے ساتھ ایک موقف اختیار کرلینا بھی دین کی حکمت، مصلحت اور بصیرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جہاں تک تعلق محاسبے کا ہے وہ تو کسی بھی ایسے موضوع پر کیا جاسکتا ہے جو آپ کے نزدیک معاشرتی یا تحریکی حقوق سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر جس کا محاسبہ کیا جا رہا ہے وہ آپ کو اپنے جواب سے مطمئن کردے کہ آپ کا احتساب غلط تھا، تو آپ کو کشادگیِ قلب کے ساتھ اپنی غلطی کو مان لینا چاہیے۔ احتساب جب تک کیا جاتا رہے گا اْمت مسلمہ ان شاء اللہ صراط مستقیم پر رہے گی۔