عافیہ کا کیس اور کمزور سفارت کاری

174

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے 13 اکتوبر، 2024ء کو امریکی صدر جو بائیڈن کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کے خاتمے کے لیے دائر رحم کی درخواست کو منظور کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔ وزیراعظم پاکستان نے چند حقائق بیان کرنے کے بعد درج ذیل الفاظ میں امریکی صدر سے درخواست کی تھی۔

Keeping these facts in view, I request you, Mr. President, to kindly exercise your constitutional authority and accept Dr. Siddiqui’s clemency petition and order her release, strictly on humanitarian grounds.

I trust that, guided by the spirit of kindness and compassion, you will accord the most serious consideration that this request deserves. Her family, and millions of my fellow citizens join me in seeking your blessings for a favorable outcome of this request.

Please accept, Mr President, the assurances of my highest consideration.

وزیراعظم کے خط کے بعد امید تھی کہ اب ریاستی ادارے اور حکام اس خط کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں گے کیونکہ یہ خط میاں شہباز شریف نے ذاتی حیثیت میں نہیں لکھا تھا بلکہ اس خط کے پیچھے ریاست پاکستان موجود تھی جوکہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بھی ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ امریکی صدر سے اس خط کی لاج رکھوائی جائے تاکہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی سزا معاف کرکے انہیں رہا کردیں۔ مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وزارت خارجہ نے اس خط کو ایک عام خط سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 25 اکتوبر، 2024ء کو وزارت خارجہ کو واضح طور پر ہدایت کی تھی کہ سرکاری وفد کے دورہ امریکا کے لیے اقدامات شروع کرے۔ یہ حکم سرکاری وفد کے پہنچنے سے تقریباً چھے ہفتے پہلے دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو بھی اس وفد میں شامل ہونا تھا۔ کلائیو اسمتھ کے علاوہ چار پاکستانیوں کو اس وفد کا حصہ بننا تھا اور امریکا جا کر رحم کی پٹیشن کی منظوری کے لیے امریکی سینیٹرز اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کرنی تھیں مگر عدالتی حکم اور چھے ہفتوں کا وقت ملنے کے باوجود وزارت خارجہ کے افسران معینہ وقت میں وفد تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی کی معذرت کے بعد سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کو اس وفد میں شامل کیا گیا۔ وزارت خارجہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا A2 کیٹیگر ی کا ویزہ حاصل کرنے میں ناکام رہی اور ایک ہفتہ سے زیادہ انہیں اندھیرے میں رکھا کہ ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آٹھ قیمتی دن ضائع کرنے کے بعد سینیٹر طلحہ محمود، ڈاکٹر اقبال آفریدی اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ پر مشتمل ادھورا سرکاری وفد امریکا روانہ ہوا۔ کلائیو اسمتھ پہلے ہی واشنگٹن ڈی سی میں موجود تھے اور وہ تنہا ہی امریکی حکام سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ طے شدہ 13 دنوں میں سے صرف 5 دن امریکی حکام سے ملاقاتیں ممکن ہو سکیں اور ان ملاقاتوں میں بھی پاکستانی سفیر غیرحاضر تھے کیونکہ سفارت خانے کو خدشہ تھا کہ کہیں امریکا کے اندرونی معاملات میں پاکستان کی مداخلت نہ ہو جائے۔ یاد کریں کیا ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے معاملے میں امریکی حکام بھی اسی طرح ڈر رہے تھے کہ کہیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکا کی مداخلت نہ ہو جائے؟۔ کلائیو اسمتھ سینیٹر بشریٰ انجم کے رویے سے نالاں رہے اور انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے بیان حلفی میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔

A2 ویزہ کے حصول کے لیے وزارت خارجہ کے ایک افسر نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو 26 نومبر، 2024ء کو اپنا پاسپورٹ اسلام آباد پہنچانے کو کہا۔ واضح رہے کہ 26 نومبر کو پورا اسلام آباد ہی نہیں بلکہ پنجاب کے تقریباً تمام شہر پاکستان تحریک انصاف کے قافلے کی وجہ سے کنٹینروں کے ذریعے بند کردیے گئے تھے۔ 2 دسمبر کو وفد کو امریکا روانہ ہونا تھا اس لیے ہم نے 25 نومبر بروز پیر کی شام فوری طور پر ٹی سی ایس سے رابطہ کیا اور یہ ضمانت مانگی کے کیا ارجنٹ میل ڈیلیوری کے تحت اگلے دن پاسپورٹ وزارت خارجہ کو پہنچ جائے گا؟۔ مگر ٹی سی ایس کے نمائندے نے معذرت کرلی کہ پورا اسلام آباد کنٹینروں سے سیل کردیا گیا ہے اس لیے مطلوبہ وقت پر پاسپورٹ پہنچانے کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ جس کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے مجھ سے کہا کہ آپ پاسپورٹ لے کر اسلام آباد چلے جائیں اور ویزہ لگواکر اگلے روز کراچی واپس آجائیں تاکہ وفد 2 دسمبر کو وقت پر امریکا روانہ ہوا جا سکے۔

26 نومبر کی صبح ایک فلائٹ کے ذریعے میں اسلام آباد روانہ ہوا، اور اسلام آباد ائرپورٹ سے سیدھا وزارت خارجہ کے دفتر ڈاکٹر صاحبہ کا پاسپورٹ لے کر پہنچ گیا۔ وزارت خارجہ کے دفتر تمام رکاوٹیں عبور کرکے پہنچنے میں میرا کوئی کمال نہیں تھا بلکہ یہ کمال سینیٹر طلحہ محمود کے اس ڈرائیور کا تھا جس نے درجنوں سڑکیں اور گلیاں کنٹینروں سے بند ہونے کے باوجود مجھے کسی نہ کسی راستے سے وزارت خارجہ کی عمارت کے عقب میں پہنچا دیا کیونکہ سامنے کا راستہ بلاک کردیا گیا تھا۔ میرے ساتھ فاروق شاہ خان بھی موجود تھے۔ جو تعلیم کے حصول کے سلسلے میں اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے ساتھ میں MOFA کے حمزہ نامی افسر سے ملا اور ڈاکٹر صاحبہ کا پاسپورٹ ان کے حوالے کردیا۔ حمزہ صاحب نے مجھے اگلے دن یعنی 27 نومبر کو رابطہ کرنے کا کہا۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ امید ہے کل تک ویزہ لگ جائے گا۔ مجھے بھی یقین تھا کیونکہ پاسپورٹ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے توسط سے ویزے کے حصول کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔ میں نے حمزہ صاحب سے درخواست بھی کی تھی کہ آپ اپنا لیٹر مجھے دے دیں تو میں ابھی امریکی سفارت خانے چلا جاتا ہوں کیونکہ وقت کم تھا اور ڈاکٹر صاحبہ کو روانگی کے سلسلے میں کافی تیاری کرنا باقی تھی۔ بہرحال اگلے روز جب میں نے حمزہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے وزارت خارجہ کے دفتر بلایا۔ اب تمام راستے کھل چکے تھے کیونکہ رات کے سرکاری آپریشن کے بعد قافلہ واپس جا چکا تھا مگر لوگوں میں آپریشن کے حوالے سے کافی غم و غصہ پایا جارہا تھا۔ میں اس امید کے ساتھ ان کے پاس گیا کہ ویزہ لگ چکا ہو گا اور میں شام کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہوجائوں گا۔ مگر وہاں جا کر پتا چلا کہ ویزہ نہیں لگ سکا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے امریکی سفارت خانہ چار دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ حمزہ صاحب نے مجھے پاسپورٹ کے ہمراہ وزارت خارجہ کی جانب سے ایک لیٹر دیا اور کہا کہ اب آپ کراچی میں امریکی قونصلیٹ چلے جائیں اور اس لیٹر کے ساتھ 29 نومبر بروز جمعہ کو پاسپورٹ جمع کرادیں، ایک دو روز میں آپ کو پاسپورٹ واپس مل جائے گا کیونکہ 28 نومبر کو Thanks Giving Day کے سلسلے میں امریکی قونصلیٹ بند رہے گا۔

بہرحال 29 نومبر کو میں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ڈاکٹر اقبال آفریدی کا پاسپورٹ کراچی کے امریکی قونصلیٹ میں جمع کرادیا۔ 2 دسمبر کو سرکاری وفد کو روانہ ہونا تھا مگر ڈاکٹر اقبال آفریدی کو 6 دسمبر کو ویزہ دیا گیا جبکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو امریکی سفارت خانے نے اسی روز یعنی 29 نومبر کو ویزہ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔ خدا ہی جانے کہ جس کی اطلاع ہماری وزارت خارجہ کو نہ ہوسکی یا انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کو سرکاری وفد میں جانے سے روکنے کے لیے اطلاع نہ دی بلکہ مسلسل آسرے میں رکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کا پاسپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد واپس ملا تھا اور میں نے ہی امریکی قونصلیٹ جا کر پاسپورٹ واپس لیا تھا۔

ہماری حکومت یا وزارت خارجہ ایک سرکاری وفد کے رکن کے لیے امریکی ویزہ حاصل نہیں کرسکی! کیا یہ کمزور خارجہ پالیسی اور سفارت کاری نہیں ہے؟ فیصلہ آپ کریں۔ میرے سینے میں بھی نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں کی طرح بہت سے راز دفن ہیں مگر ہم میں سے کوئی سیاستدان نہیں ہے اس لیے ہم پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں اور بہت محبت کرتے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی ’’پیارے پاکستان‘‘ کے ذریعے ہی ہو تاکہ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہو، سہرا چاہے کسی کے بھر سر بندھے۔