خالد مخدومی کے لیے دعائیں

164

زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے۔ ہمیں اپنی ذاتی، خاندانی، معاشرتی اور پروفیشنل زندگی میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ زندگی کی پر خار راہوں میں کچھ لوگ محبت، امید اور خوشی سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ زندگی میں ذہنی اذیت کا باعث بھی بنتے ہیں گویا دنیا میں دو ہی قبیلے ہیں ایک زہر پلانے والے اور دوسرے زہر پینے والے، خالد مخدومی کا تعلق زہر پینے والے قبیلے سے تھا۔ جس نے کسی کو دکھ نہیں دیا بلکہ دوسروں کا دیا ہوا دکھ سہا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے ملنے والی کامیابیوں، خوشیوں اور نعمتوں کو اپنی قابلیت کا شاخسانہ سمجھتے ہوئے خود پسندی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں ان کے مقابلے میں خود پسند انسان ہیں۔ ہمیشہ ذاتی مفاد کے گھوڑے پر سوار ہو رہتے ہیں اور خودغرضی کی تلوار سے دوسروں کی عزت نفس کی دھجیاں اُڑاتے ہیں مگر خالد ان میں سے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی خامیاں سامنے رکھیں اور دوسروں کی خوبیوں کو بیان کیا۔ وہ نرگس کے پھول کی مانند اپنی ہی محبت میں گرفتار ہوجانے والوں میں بھی نہیں تھے جو خود کو عقل کل سمجھتے ہوں وہ ان لوگوں میں بھی نہیں تھے جو لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ وہ ایک بلند پایہ انسان تھے اور با ہمت بھی۔ وہ اختیار ملنے پر گھٹیا پن کا مظاہرہ کرنے والوں سے بھی نہیں تھے۔ دوسروں کی شخصیت، کام اور خوبیاں دیکھ کر حسد کی بھٹی میں جلنے والے بھی نہیں تھے وہ ایک کمال انسان تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

دیکھیے، ذرائع ابلاغ کی دنیا میں جسارت بھی کیا کمال کا قومی اثاثہ ہے، ایک وقت تھا جسارت کا توتی بولتا تھا، اس وقت اسے صلاح الدین، عبدالکریم عابد جیسے مدیر میسر تھے، کیا خوب انسان تھے۔ ان جیسی صحافتی اور باغیانہ جرأت کسی میں نہیں دیکھی ان جیسے مدیروں کے سایہ میں پرورش پانے والے رپورٹر بھی کمال تھے۔ ان مدیروں کا ریمورٹ خود انہی کے ہاتھوں میں تھا ریمورٹ بھی بالکل درست، چار دبائو تو چار کا بٹن ہی دبتا تھا، چوالیس کا نہیں، جسارت کی پہچان بھی یہی لوگ تھے، جسارت نے ایوب خان، یحییٰ خان کا زمانہ دیکھا بھٹو صاحب کا دور بھگتا، ضیاء الحق کا ’’اسلام‘‘ بھی دیکھا، مشرف کی روشن خیالی کا مقابلہ کیا، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جمہوریت بھی دیکھی، غرض بہت کچھ دیکھا، مگر جسارت کے رپورٹر کو کوئی دور دبا نہیں سکا، ہاں مگر کچھ خود احتسابی کا ضرورت ہے اور یہ ہر دور میں رہی ہے جوں جوں انسان خود احتسابی کی زنجیر سے آزاد ہوتا ہے تو خرابی بھی در آتی ہے۔

جسارت کو آج چھپن سال ہونے والے ہیں یہ پاکستان، اسلام اور نظریہ پاکستان کی جنگ لڑ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے اور دیانت داری سے لڑ رہا ہے۔ یہ اپنا فرض پورا کر رہا ہے اس کے قافلہ حق میں شامل لوگ خالد مخدومی جیسے کردار ہیں۔ کس کس رپورٹر کا نام لیا جائے، یہ سب صاحب کردار لوگ ہیں اور تھے، یہ روبوٹ نہیں تھے، ان رپورٹرز نے کم وسائل میں اس قدر کام کیا ہے کہ بڑے بڑے سورما بھی نہیں کرسکے تھے، یہ کام اس لیے ہوگیا کہ اللہ کی نصرت ان کے ساتھ تھی اور ان کی خواہشات کا ریمورٹ کنٹرول بھی خود انہی کے اپنے ہاتھوں میں تھا ان لوگوں نے اپنی جسارت کے لیے اپنے جوانیاں لگا دیں، خالد مخدومی نہایت خاموشی کے ساتھ ہمیں یہ سبق دے گئے ہیں کہ دوسروں کے احساسات، جذبات اور مقاصد کی بھی قدر کریں، لوگوں کو قبول کرنا سیکھیں۔ پروفیشنل لائف میں اپنے ساتھیوں، باس اور ہائر مینجمنٹ سے خوشگوار تعلقات رکھیں آپ کی زندگی میں ملنے والے لوگ مواقع ہیں۔ آپ نفرت، نظر اندازی، بے جا تنقید اور پروفیشنل پولیٹکس سے لوگوں کو اپنا ہم نوا نہیں بنا سکتے۔ اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ دوسروں کے مفادات، جذبات اور مقاصد کا بھی خیال رکھیں، بس ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ ہم اپنی زندگی کی ذمے داری لیں۔ مثبت رویے اور دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں اللہ تعالیٰ بدلے میں بہت کچھ دے گا جس کا آپ نے تصور بھی کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ شکرگزاری کا جذبہ آپ کے دل میں اطمینان اور خوشی بھر دے گا۔

جسارت ایک ایسا کا خانہ ہے یا اسے غضب کا مجسمہ ساز کہہ لیجیے اس کی انگلیوں میں مہارت پھڑپھڑاتی اور جب وہ مٹی گوندھ کر اس کو مجسمے کی شکل دیتا تو لوگ اس کی صفائی اور خوب صورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتے، جسارت نے بلاشبہ بڑے نام پیدا کیے، خالد مخدومی بھی ان میں سے ایک تھے۔ وہ ایک اور سبق بھی دے گئے ہیں اور راہنمائی بھی کہ ’انا‘ دراصل اپنے بارے میں ایک تصور کا نام ہے جو کہ غلط فہمی پر مبنی ہوتاہے۔ ہر انا والا انسان سمجھتاہے کہ ’’میرے پا س جو عہدہ ہے، یہ دنیا کا سب سے طاقتور عہدہ ہے‘‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن کریم میں اللہ ارشاد فرما تا ہے کہ ’’ہر علم والے کے اوپر ایک علم والاہے‘‘۔ (سورۃ یوسف: 76) کوئی انسان اگر یہ سمجھتا ہے کہ میں ہی اس دنیا کا واحد اور منفرد انسان ہوں تو یہ اس کی اپنی عقلی کمزوری ہے۔ عہدے اور اختیار کا نشہ سب سے خطرناک نشہ ہے اگر ایسے لوگ غور کریں اللہ نے یہ پوری کائنات بنائی ہے، جس میں بے شمار کہکشاں ہیں جس میں ایک سورج اور کئی سارے سیارے ہیں۔ ان سیاروں میں ایک سیارہ زمین ہے۔ جس میں سات ارب انسان اور ڈیڑھ سو سے زائد ممالک ہیں۔ ان میں ایک ملک پاکستان ہے جس میں بے شمار شہرآباد ہیں اور ان میں بسنے والا ایک عام انسان ہے۔ تو پھر اس کے اندرکون سی انا، کہاں کا تکبر ہاں! جو انسان عبادت گزار ہے لیکن اس کے باوجود بھی متکبر اور اناپرست ہے تو پھر یہ اس کی عبادت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے مولاناجلال الدین رومی کہتاہے کہ ’’انا، خدا اور بندے کے درمیان پردہ ہے‘‘۔ البتہ جو شخص اس پردے کو گرادیتا ہے تو وہ اللہ کے قریب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو شکر گزاری کی کیفیت پیدا کرلے تو اس کی انا کنٹرول میں آجاتی ہے۔ بس یہی سبق ہمیں خالد مخدومی دے گئے ہیں۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا