صحت مند ماحول، صحت کی ضمانت

184

ڈاکٹر صاحب نے نسخہ لکھتے ہوئے کہا کہ دوا تو میں لکھ رہا ہوں مگر آپ کو ضرور پینتیس 40 منٹ واک کرنی ہوگی تب ہی آپ کا مسئلہ حل ہوگا!! ڈاکٹر صاحب واک، مگر میں کہاں کروں گی میرے تصور میں ٹوٹی سڑکیں بہتے ہوئے گٹر کا پانی اور کوڑا کر کٹ سامنے آگیا، میں جو کراچی میں رہتے ہوئے اپنی طبیعت اور مزاج سے عاجز بھی ہوں یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں کراچی جو میرا محبوب شہر ہے مگر اس کی صورتحال میرے دل کو دکھانے کا سبب بھی ہے کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ماحولیاتی آلودگی اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی بدولت سنگین صورتحال سے دوچار ہے، ایک نہیں کئی کئی مسائل نے عروس البلاد کراچی کی رونقوں کو معدوم کر دیا ہے جہاں یہ مسائل ہیں وہاں امن و امان کا مسئلہ بھی شہریوں کو عدم تحفظ اور ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتا جا رہا ہے۔ اگر ہم بات کریں ماحولیاتی آلودگی کی تو صنعتی آلودگی گاڑیوں کا دھواں فضلے کا صحیح جگہ ٹھکانے نہ لگانا فضا کو زہریلا بنا رہا ہے اس سے نہ صرف انسان بلکہ جانور اور پودے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور سوچیں یہ پودے مرجھا جائیں درخت نہ بن سکیں تو آلودگی ہی حاوی ہوگی، بم بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے سبب مختلف امراض مثلاً سانس کی بیماریوں دل کی بیماریوں جلدی بیماریوں اور دیگر امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، یہ آلودگی صرف عام آدمی کی صحت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ اس ماحولیاتی آلودگی نے اقتصادی اور سیاحتی سرگرمیوں کو بھی متاثر کر دیا ہے کراچی وہ شہر تھا جسے دیکھنے لوگ دور دور سے آنا چاہتے تھے مگر آج انتہائی افسوسناک صورتحال سے دوچار ہے، اب یہاں صنعتوں کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے بنانا پڑتا ہے، سڑک، سیوریج اور لائٹس سب انہیں لگانی پڑتی ہیں، جبکہ پاکستانی دواسازی کی صنعت کو تو بین الاقوامی قوانین کی پابندی بھی لازماً کرنا پڑتی ہے، یہ سب کرنے کے بعد انہیں ٹیکس بھی پورا دینا پڑتا ہے۔ بات صرف ماحولیاتی آلودگی کی نہیں بلکہ سارا نظام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، انفرا اسٹرکچر کی تباہی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے، اگر 70 کی دہائی تک کی بات کی جائے تو یقین نہیں آتا کہ وہی سڑکیں ہیں اور شہری نظام ہے جبکہ جدید سے جدید ٹیکنالوجیاں آگئی ہیں جن سے بہت جلد اور بہت بہتر طریقے سے ہر چیز ٹھیک کی جا سکتی ہے بات صرف خلوص کی اور اپنی مٹی سے محبت کی ہے۔ کراچی جو کہ لگتا ہے کسی منصوبے کے تحت تباہ کر دیا گیا اس کی سڑکیں اُدھیڑ کر رکھ دی گئیں جن پر چلنا تو دور کی بات گاڑی چلانا بھی سر درد سے کم نہیں، خراب منصوبہ بندی اور ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، زیر تعمیر سڑکیں، پل، فلائی اوور اور ریڈ اور مختلف لائن کی بسوں کے نظام کے قیام کی برسوں سے جاری نامکمل تعمیرات،جن کے اختتام کا پتا ہی نہیں، ان سب نے سڑکوں کو تنگ کر دیا ہے اس پر طرہ تجاوزات ہیں، پیسہ کھلاؤ اور جہاں چاہو عمارت بنالو، کوئی پوچھنے والا نہیں اگر ایک سڑک اللہ اللہ کر کے بن جائے تو کچھ دنوں بعد خیال آتا ہے یہاں زیر زمین گٹر یا کوئی اور پائپ لائن گزرنا ہے، اور یہ سڑک پھر اُدھیڑ دی جاتی ہے نامعلوم مدت تک کے لیے، پھر وہی اُڑتی ہوئی گردو غبار اور بہتا سیورج کا پانی، نکاسی کا بھی اس قدر ناقص انتظام ہے کہ تھوڑی سی بارش ان تعمیرات کا پول کھول دیتی ہے، یہ گٹر بہتا ہوا گلیوں اور سڑکوں سے جب گزرتا ہے تو تعفن اور گندگی ذہنی اذیت کا سبب بنتی جاتی ہے، کچرے کا ڈھیر جگہ جگہ خاص طور پر مساجد، اسکولوں اور پارکوں کے باہر تو لگتا ہے خاص اجازت لے کر کچرا کنڈی بنائی جاتی ہے اس کی سڑاند جس طرح فضا کو آلودہ کرتی ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔

یہ حال صرف کراچی کا نہیں باقی ملک بھی اسی مسئلے سے دوچار ہے، مگر افسوسناک بات یہ کہ پاکستان کے صنعتی مرکز منی پاکستان، کراچی کی مجموعی صورتحال پر بات کی جائے تو دل دکھانے کو بہت کچھ نظر آتا چلا جائے گا مگر ہمیں واقعی سنجیدگی کے ساتھ مل کر سوچنا ہوگا جہاں حکومتی اداروں کا فرض ہے وہاں ہم سب کا بھی ہے کہ ہم ماحول کی صفائی کے لیے آگاہی پروگرام کو پھیلائیں صفائی نصف ایمان کے سرکار دوعالم کے حکم کو سمجھنا ہوگا، اس حکم میں صرف لباس کی صفائی نہیں ہے بلکہ راستوں سے پتھرہٹانا، جگہ جگہ کچرا نہ پھینکنا، اور ایک خاص بات آج کل ہر شخص کے منہ میں گٹکا، پان چھالیہ ہے یہاں تک کہ بات کرنا مشکل ہے اور یہ لوگ ہرجگہ پیک تھوکتے پھرتے ہیں، جبکہ ہمارے نبی نے جگہ جگہ تھوکنے کی ممانعت کی ہے۔ یہ عادت تو ایک طرف کھانے والے کو بیمار کرتی ہے اور دوسری طرف بیماریاں پھیلانے کا سبب بھی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے بھرپور مہم چلانی ہوگی۔

اسی طرح صنعتوں کو آلودگی کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ عوامی ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا ہوگا سالڈ ویسٹ کو ری سائیکل کرنے اور مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کا انتظام کرنا ہوگا ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنس دان و ماہرین کی مدد لینا ہوگی میڈیا کے ذریعے شعور بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں حکومتی اداروں کو اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے وہیں ہر شہری اپنی ذمے داری محسوس کرے تو ماحول بہتر ہوسکتا ہے۔