امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے کہا تھا کہ ’’20 جنوری کو میرے حلف اٹھانے سے پہلے اگر حماس نے اسرائیلی قیدی رہا نہ کیے تو غزہ کو جہنم بنا دوں گا‘‘۔ ہمارا خیال تھا کہ امریکا کا صدر جہاں دنیا کا سب سے طاقتور حکمران ہوتا ہے وہیں پر وہ سب سے زیادہ مہذب بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں مظلوم و محکومت عوام کی آزادی اور حفاظت کے لیے سب سے زیادہ توانا آواز امریکا میں سے آتی ہے۔ امریکا انسانی حقوق کا نہ صرف علمبردار ہے بلکہ عملاً بھی یہ انسانوں کو درندوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکا کا ڈالر غریب اقوام اور پسماندہ ممالک کی معیشت کو سہارا دیتا اور مضبوط کرتا ہے۔ مگر شاید ایسا نہیں ہے۔ زمینی حقائق ہمارے خیال کی نفی کررہے ہیں۔
امریکی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا جنگل بن چکی ہے جہاں طاقتور کمزور کا شکار کررہے ہیں۔ امریکا کے ظلم اور ناانصافی پر مبنی فیصلے دنیا کے امن کو تہہ بالا کررہے ہیں۔ امریکا آزاد اقوام کو غلام بنانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ مستحکم ممالک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سازشیں کرتا ہے۔ امریکی امداد خود انحصاری کے لیے نہیں بلکہ کشکول اُٹھائے رہنے کے لیے ہوتی ہے۔ امریکی افواج کی دنیا کے مختلف ممالک میں موجودگی اور آپریشنز درحقیقت دہشت گرد پیدا کرنے اور دہشت گردی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ امریکا کی خفیہ ایجنسی ’’سی آئی اے‘‘ کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے جو ٹارگٹ کلنگ سمیت امریکا مخالف حکومتوں کو گرانے اور امریکا نواز حکمران لانے میں مصروف رہتا ہے۔ امریکا کو کسی بھی ملک میں فوجی مداخلت کرنے کے لیے وہاں بدامنی اور دہشت گردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکی سفارتخانے دوستی کا حق ادا کرنے کے بجائے دشمنی کا کام کرتے ہیں۔ امریکا کی دشمنی سے زیادہ دوستی خطرناک ہے کہ جو اپنے دوست کو ہمیشہ کے لیے مفلوج اور محتاج کردیتی ہے۔ امریکا کے ’’ویٹو پاور‘‘ نے یو این او کو ناکام اور دنیا کے امن کو برباد کردیا ہے۔ عالمی برادری کو ’’برادری‘‘ کے طور پر امریکا نے کبھی قبول نہیں کیا۔ امریکا ’’بلاک‘‘ کی سیاست پر یقین رکھتا ہے۔ امریکی بلاک میں شامل ہونے کا مطلب آپ ایک وسیع جیل میں داخل ہوگئے جہاں داخلے کے وقت تو بہت سی مراعات اور وعدے موجود تھے مگر داخل ہوجانے کے بعد ہاتھ گردن سے باندھ دیے جاتے ہیں۔ بلاک سے نکلنے کی جو کوشش کرے گا اُسے انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ امریکا کا فوجی اتحاد ’’ناٹو‘‘ ناٹو ممالک کی حفاظت سے کہیں زیادہ امریکا کے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کو دنیا پر بزور طاقت مسلط کرنے کے لیے ہے۔
’’غزہ‘‘ کو جہنم بنادینے کے حوالے سے نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے جو دھمکی دی ہے وہ گیڈر بھبکی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ غزہ تو پہلے ہی کھنڈر اور قبرستان بن چکا ہے اور یہ سب کچھ صرف اسرائیلی حملوں کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اس میں امریکی اسلحہ اور ڈالر بھی شامل تھے۔ فلسطینی مسلمانوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا، اِن کی عزت دار خواتین کی بے عزتی کی گئی، ان کے معصوم بچوں کو بھوکا اور پیاسا رکھ کر مارا گیا، ان کے اسپتالوں کو بمباری کا نشانہ بنا کر زخمیوں اور بیماروں کو تڑپتا ہوا چھوڑ دیا گیا۔ ان میں سے کچھ بھی بھول جانے والا نہیں۔ مذکورہ تمام جرائم میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر، جنرل اور دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی برابر کے ملوث ہیں لہٰذا امریکا کے نومنتخب صدر اچھی طرح سے جان لیں کہ اہل غزہ اپنے قاتل اور مجرم کو خوب پہچانتے ہیں۔ انبیاؑ کی سرزمین کو جہنم بنادینے کے خواب دیکھنے والے یہود و نصاریٰ اپنے تمام تر مظالم کے باوجود ناکام اور شرمندہ رہیں گے۔ جب تک مسجد اقصیٰ سے اذان کی آواز گونجتی رہے گی اور ایک بھی فلسطینی زندہ رہے گا تب تک ’’جہاد‘‘ جاری رہے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے پاس فوجی طاقت ہے اور وہ اہل غزہ پر ہیروشیما اور ناگا ساکی کی طرح ایٹم بم گرا سکتا ہے مگر یہ بم اب کچھ نہیں کرسکتے، اہل غزہ ڈیڑھ سال سے آگ اور خون کے دریا میں ڈوب کر بھی زندہ ہیں مگر پھر بھی اگر کوئی مزید قیامت لانا چاہتا ہے تو اپنا شوق پورا کرکے دیکھ لے، تاہم اس بات کا ضرور خیال رہے کہ اس دوران اگر کوئی ایک بھی فلسطینی مسلمان زندہ رہ گیا اور اس نے امریکی صدر کے سر کی قیمت مقرر کردی تو پھر کیا ہوگا؟
بہرحال سب سے اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ غزہ کو جہنم بنادینے والے صدر ٹرمپ اپنی حلف برداری سے صرف ایک ہفتہ پہلے اپنے وطن میں جہنم کا نظارہ دیکھ چکے ہیں۔ امریکا کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں آگ بھڑک اُٹھی۔ 15 ہزار کے قریب گھر جل کر راکھ ہوگئے۔ ابھی تک ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاچکا ہے۔آگ 145 مربع کلو میٹر تک کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں 40 کلو میٹر کا گنجان شہری علاقہ ہے۔ 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائوں نے آگ کو تیزی سے پھیلا دیا۔ درجنوں لوگ جل کر مرگئے، قیدی بھی فرار ہوگئے، لوٹ مار بھی شروع ہوگئی، کرفیو بھی لگادیا گیا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر سڑکوں پر آگئے، یہ ہے قدرت۔ اہل غزہ کے خلاف صدر ٹرمپ کے ناپاک ارادوں کی تکمیل سے پہلے بھی اللہ پاک نے امریکا کو سزا دے ڈالی اور ان شاء اللہ ٹرمپ کے دور صدارت میں مزید سزا بھی مل جائے گی۔
ہم آخر میں صدر ٹرمپ پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہودی قیدی دھمکیوں سے نہیں کسی اصولی معاہدے کے بعد ہی آزاد ہوسکتے ہیں۔ بصورت دیگر جنگ اور جہاد جاری رہے گا۔ اہل فلسطین کے لیے جنت اور امریکا و اسرائیل کے لیے جہنم کا دروازہ کھلا رہے گا۔