9 مئی کو لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس میں جانا سکیورٹی بریچ تھا،کسی فوجی افسر کا ٹرائل ہوا؟ عدالت

171
financial cases worth 97 billion rupees are pending

اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات کی سماعت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں کی کارروائی میں آئینی بینچ نے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ 

عدالت نے 9 مئی کے واقعات کے دوران کور کمانڈر ہاؤس میں داخل ہونے کو سکیورٹی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ کیا اس دوران کوئی مزاحمت کی گئی؟

آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں، اور اس میں جسٹس حسن اظہر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی۔ 

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ایک نیا عمل نہیں ہے، بلکہ یہ 1967 سے موجود قانون کا حصہ ہے۔

 انہوں نے ایف بی علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جن افراد پر مقدمات چلائے گئے وہ ریٹائرڈ تھے، اور یہ کہ زمانہ امن میں بھی اگر کوئی سویلین فوجی امور میں مداخلت کرے گا تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہی ہوگا۔

اس پر جسٹس حسن اظہر نے وضاحت دی کہ ایف بی علی کیس سول مارشل لا کے دور سے متعلق تھا، اس لیے اسے موجودہ صورتحال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ماسٹر مائنڈ ضرور ہوگا، اور پوچھا کہ سازش کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوگا؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سازش کرنے والے افراد کا ٹرائل بھی فوجی عدالتوں میں ہی ہوگا۔ اس پر جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ 9 مئی کے واقعات میں کیا کسی فوجی افسر کا ملوث ہونا ثابت ہوا؟ اور اگر لوگ کور کمانڈر ہاؤس میں پہنچے تو کیا اس دوران کوئی سکیورٹی کی خلاف ورزی یا مزاحمت کی گئی؟

وزارت دفاع کے وکیل نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مظاہرین پر الزام صرف املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے اور اس واقعے میں کسی فوجی افسر کو چارج نہیں کیا گیا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ فوج نے مکمل تحمل کا مظاہرہ کیا اور جانی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔

عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔