بلوچستان امیر ترین صوبہ

211

اے ابن آدم میں ہمیشہ سے ایک ہی بات کرتا ہوں اور مرتے دم تک کرتا رہوں گا کہ یہ پاکستان ہمارے لیے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جس کی ہم نے اب تک قدر نہ جانی۔ پاکستان میں اتنا خزانہ ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے بس ایماندار اسٹیبلشمنٹ اور ایماندار حاکم وقت کی ضرورت ہے، یہ قوم کی بدنصیبی ہے کے اُسے ایماندار قیادت نہ مل سکی ملک کی واحد ایماندار جماعت؛ جماعت اسلامی کو کبھی نہ تو عوام نے نہ ہی اسٹیبلشمنٹ نے حکمرانی کا موقع فراہم کیا لیکن جماعت اسلامی کو اس کا کبھی غم نہیں رہا وہ عوام کی خدمت کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہر صورت میں اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ اقتدار اُن کی کبھی منزل نہیں رہا اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا، بلوچستان ہمارے ملک کا امیر ترین صوبہ ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے بلوچستان کی احساس محرومی کو ختم کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی بلکہ ایک ایسے عظیم بلوچ رہنما کو مار دیا جو اپنی عوام کے حقوق کی بات کرتا تھا جو اپنے خزانہ سے اپنی قوم کا حق مانگ رہا تھا۔ نواب اکبر بگٹی جیسے لیڈر برسوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اے ابن آدم پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں اب تک تقریباً 40 انتہائی قیمتی زیر زمین معدنیات کے وسیع تر ذخائر دریافت ہوچکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ 50 سے 100 سال تک ملکی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ ان میں تیل، گیس، سونا، تانبا، یورینیم، لوہے، کوئلے، گرومائٹ، سیسے، سیلیکون، سلفر اور پلاٹینیم وغیرہ کے ذخائر بھی شامل ہیں۔ ریکوڈک سے 10 ارب کلو گرام تانبا اور 36 کروڑ 80 لاکھ گرام سونا ملنے کی توقع ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2024ء میں ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح 0.92 فی صد رہی۔ اس میں کان کنی کی شرح نمو منفی 4.6 فی صد تھی جو نہایت افسوسناک ہے، ایک ایسے ملک میں جو معدنی دولت سے مالا مال ہے بلوچستان پر بھرپور توجہ دی جائے تو نہ صرف اس بدحال صوبے بلکہ پورے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ چین کی مدد سے اقتصادی راہداری کے جس منصوبے پر کام ہورہا ہے اس کے اپنے بے پناہ ثمرات ہیں۔ اسی طرح دوسرے قدرتی وسائل کو بھی بروئے کار لانے کے لیے بھرپور توجہ درکار ہے۔ سعودی عرب ریکوڈک اور کان کنی کے دوسرے وسائل پر سرمایہ کاری میں جو دلچسپی لے رہا ہے اس سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہیے۔ صرف ریکوڈک منصوبہ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے طویل ساحل سمندر میں کھربوں ڈالر کا تیل اور گیس موجود ہے۔ ضرورت اس سے استفادہ کرنے کے لیے سرمایہ کار تلاش کرنے کی ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات اگرچہ اس کے لیے فی الحال پوری طرح سازگار نہیں ہیں مگر توقع ہے کہ سیاسی استحکام آنے سے اس سمت میں فائدہ بخش پیش رفت ہوگی۔ بلوچستان انتہائی پسماندہ صوبہ ضرور ہے ہمارے کالے انگریزوں نے اس صوبے پر کبھی توجہ نہیں دی، احساس محرومی کی وجہ سے ہر دور میں بغاوت نے جنم لیا، پاکستان میں ایک ایماندار قیادت آجاتی تو آج جو بلوچستان کا حال ہے وہ یہ نہیں ہوتا کچھ غلطیاں وہاں کے سرداروں کی بھی ہیں۔ بلوچستان کا ضلع چاغی میں ایک مقام ایسا ہے جسے ریکوڈک کہتے ہیں، اس مقام پر سونے اور چاندی کے 5.9 ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ اس مقام پر 40 سال تک کان کنی ہوسکتی ہے، ماضی میں ان ذخائر کے لیے معاہدے ہوئے پھر ان پر مقدمہ بازی بھی ہوئی، آخر میں ان کی تنسیخ ملکی تاریخ کا ایک المیہ ہے، کچھ عرصے قبل غیر ملکی کمپنی بیرک گولڈ کے ساتھ اس کے 50 فی صد شیئرز فروخت کرنے کا معاہدہ ہوا جبکہ 50 فی صد وفاق اور بلوچستان کے حصے میں کام کو آگے بڑھانے کے لیے وفاقی حکومت نے بین الملکی لین دین کے قانون کے مطابق سعودی عرب کو اپنے حصے میں سے 15 فی صد شیئرز فروخت کرنے کی منظوری دے دی جن کی مالیت 540 ملین ڈالر یعنی ایک کھرب 50 ارب 80 کروڑ کے مساوی ہے۔ حکومت کے مطابق پہلے مرحلے میں منصوبے کے 10 فی صد شیئرز ملیں گے جس کے لیے وہ پاکستان کو 303 ملین ڈالر 92 ارب ادا کرے گا۔ دوسرے مرحلے میں باقی 5 فی صد شیئرز کی فروخت سے پاکستان کو 210 ملین ڈالر (58 ارب 44 کروڑ روپے) ملیں گے۔ پہلی قسط کی ادائیگی ابتدائی 10 فی صد شیئرز کی منتقلی کے فوری بعد متوقع ہے۔

سعودی عرب نے ریکوڈک مائنز جہاں 40 سال تک کان کنی ہوسکتی ہے کے علاوہ بلوچستان میں معدنی دولت کی تلاش میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ حکومت اس معاہدے کو پبلک کرے، ماضی میں ہزاروں معاہدے ہوئے جن کا عوام کو علم نہیں اُن معاہدوں کو کرنے والے اربوں روپے کمیشن لے کر راتوں رات ارب پتی بن گئے، ماضی میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کا معاہدہ اس کی ایک بڑی مثال ہے، اس منافع بخش ادارے کی نجکاری کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، معاہدہ ایسا ہونا چاہیے جس سے ملک و قوم کو فائدہ ہو، ہمارے ملک کی اشرافیہ اس طرح کے اہم معاہدوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے، اللہ کرے کہ سعودی عرب کے اس معاہدے کا ملک و قوم کو فائدہ ہو اس کے لیے ملک کی اشرافیہ اور سیاسی پارٹیوں کو اب اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، مل جل کر ملک کی معیشت کے لیے کام کرنا ہوگا اور اقتدار کی رسہ کشی کو قومی و ملکی مفادات کے تابع کرنا ہوگا۔ بدلتے ہوئے عالمی پس منظر میں مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام ہی کسی قوم کی بقا کی موثر ضمانت بن سکتا ہے۔ ملکی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے پاک چین مثالی دوستی کے مظہر دو اہم منصوبوں میں ہونے والی پیش رفت قابل ذکر اور خوش آئند ہے۔ پہلا منصوبہ نیو گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ کا ہے جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے جس سے سالانہ 40 لاکھ مسافر سفر کریں گے۔ دوسرا پروجیکٹ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ (5-C) کا ہے جو ملک کا اب تک کا سب سے بڑا بجلی گھر ہوگا یہ 2030ء تک تکمیل پائے گا جس سے 1200 میگاواٹ کاربن فری سستی بجلی کا اضافہ ہوگا۔

ابن آدم کا سوال ہے بھائی 2030ء کس نے دیکھا ہے قوم کو تو بجلی کی مد میں فوری ضرورت ہے۔ عوام کو بھوک ابھی لگ رہی ہے کھانا 2030ء میں ملے گا اب اس بات کو چھوڑ کر حکومت بجلی کی قیمتوں میں فوری ریلیف دینے کا اعلان کریں، بہت ڈراما ہوچکا آئی پی پیز نے عوام کو خودکشیوں پر مجبور کردیا، اشرافیہ کو تو بجلی مفت میں ملتی ہے اُن کے پیسے بھی غریب عوام سے وصول کیے جارہے ہیں۔ وزیراعظم صرف اُڑان پاکستان اور اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس بہتر ہونے کی خوشخبری دے رہے ہیں مگر حافظ نعیم الرحمن جاگ رہا ہے۔ اس نے عوام کو جو زبان دی ہے اس پر وہ آج بھی قائم ہے 17جنوری سے بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ کیے جانے کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔ اے میری قوم جاگ جائو اپنے حق کے لیے حکومت کو مجبور کردو کہ بجلی کی قیمت 10 روپے فی یونٹ مقرر کی جائے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو عوام کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔