20 جنوری کو صدر ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہائوس میں جلوہ گر ہورہے ہیں۔ ان کی اس جلوہ گری میں ایلون مسک کی حرکتوں اور ڈالروں کا بھی دخل ہے۔ ٹرمپ کو ریسلنگ اور دوسروں کو بے عزت کرنے کا شوق ہے اور مسک کو الیکٹرونکس کا۔ ان کا بس چلے تو پیار محبت اور حسن کو بھی مصنوعی ذہانت میں شامل کردیں۔ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں پہلے صدر ہوں گے جنہوں نے مجرمانہ ریکارڈ بنانے کے لیے امریکا کے صدر بننے کا انتظار نہیں کیا۔ وہ ’’پہلے ہی‘‘ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ جن میں سے ایک ریکارڈ فحش فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینئلز کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کی ادائیگی کو مخفی رکھنا ہے۔ امریکا میں فحش اداکارائوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا جرم نہیں، تعلقات کے عوض رقم کی ادائیگی بھی جرم نہیں بس تعلقات چھپانا جرم ہے۔ حالانکہ اس جرم پر مقدمہ چلانے کے بجائے سراہا جانا چاہیے تھا کہ امریکیوں کو ایسا صدر نصیب ہوا ہے جو طوائفوں کو بھی پوری پوری ادائیگی کرتا ہے۔ البتہ ایک مسئلہ ہے جس کا امریکیوں کو سامنا کرنا پڑے گا کہ کون کون سی طوائف خاتون اوّل ہے اور کس کس طوائف کی تکریم کرنا ہوگی؟
ٹرمپ ہر ایک کے لیے واضح ایجنڈا، دھمکیاں اور ڈیمانڈز رکھتے ہیں۔ ہر ایجنڈے کا ایک اختتام ہوتا ہے لیکن ان کی دھمکیوں اور ڈیمانڈز کا کوئی انت ہے اور نہ سمت۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں کسی کو بھی لتاڑ سکتے ہیں۔ وہ یورپی اور غیر یورپی اتحادی سبھی کو ’’سلطان تیری قدرت‘‘ کا ورد کراتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف وہ میکسیکو اور کینیڈا کو درآمدات پر 25 فی صد ٹیرف عائدکرنے کی وارننگ دے رہے ہیں تو دوسری طرف کینیڈا کو امریکا کی 51 ویںریاست بنانے، امریکا میں ضم کرنے اور کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو کو اس اسٹیٹ کا گورنر بنانے کا کہہ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ میکسیکو سے امریکا کی طرف ہجرت کرنے والوں کو روکنے کے لیے جنوبی سرحد بند کرنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ ٹرمپ کی موشگافیوں پر ٹروڈو نے استعفا دے دیا ہے، جب کہ میکسیکو کی خاتون صدر کلاڈیا شیئن بام سے ٹرمپ نے سرحد بند کرنے کی بات کی تو انہوں نے ’’ہم ہنس دیے ہم چپ رہے‘‘ سے اس کا جواب دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ جیسے بدمعاشوں کو عورتیں بہتر ڈیل کر لیتی ہیں۔ دوسرے یہ بھی کہ بری بات اور برے گانے پر چپ ہوجانا، مسکرانا اور ہنسنا زیادہ بہتر جواب ہے۔
برف سے ڈھکے ہوئے گرین لینڈ جزیرے کے باسیوں کے لیے بھی گالی دیے بغیر ٹرمپ کا ذکر کرنا ممکن نہیں جسے ٹرمپ مزے مزے سے ہنہناتے ہوئے چرنا ہی نہیں مکمل کھانا چاہتے ہیں۔ ڈنمارک کی بادشاہت کے نزدیک ان کا گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔ اس پر ان کا قانونی حق ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر گرین لینڈ پر ڈنمارک کا کوئی قانونی حق ہے بھی تو اس سے ان کو دستبردار ہوجانا چاہیے کیونکہ ہم ایسا کہہ رہے ہیں اور چونکہ ہم ایسا کہہ رہے ہیں اس لیے کسی کے چوں کرنے کی گنجائش نہیں۔
دنیا بھر میں امریکی بالادستی کے لیے کوشاں رہنے والے ناٹو اتحادیوں کی بھی صدر ٹرمپ نے کلاس لے رکھی ہے۔ 2016 میں انہوں نے ناٹو کو فرسودہ قرار دیا تھا اور کہا تھا اگر وہ تنظیم ٹوٹ جائے تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ ستمبر 2018 میں انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’امریکا کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں ناٹو پر بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے‘‘۔ امریکا ناٹو کے تمام رکن ممالک کے دفاع پر کل اخراجات کا تقریباً 70 فی صد ادا کرتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے باوجود کئی برس پہلے امریکی کانگریس نے ملک کے ناٹو سے نکلنے کو روکنے کے لیے قانون سازی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ڈیموکریٹ اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں نے اس کی زبردست حمایت کی تھی اور اس کے حق میں 357 ووٹ تھے اور اس کے مخالف صرف 22 ووٹ ڈالے گئے تھے تا ہم اس کے باوجود ٹرمپ ناٹو کو محض خرچ کے حساب کتاب کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ ناٹو امریکا اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں سوویت یونین سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ آج اس کے رکن ممالک کی تعداد 29 ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ وہ ڈینٹسٹ ہیں جو یہودی ریاست اسرائیل کے لیے خطے کے تمام اسلامی ممالک کے دانت نکال سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو وہ انتشار سے تعبیر کرتے ہیں جس میں بیس جنوری تک، ان کی حلف برداری کی تقریب سے پہلے، یہودی یرغمالی رہا نہ ہونے پر وہ جہنم کے دروازے کھول دیں گے۔ بقول ان کے ’’ہر طرف عذاب مسلط‘‘ کر دیا جائے گا، اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہوں گے، انہیں امریکا کی طویل اور تاریخ کی سب سے سخت ترین سزا دی جائے گی‘‘۔ 7 اکتوبر 2023 سے، اسرائیل مکمل امریکی حمایت کے ساتھ، غزہ کی پٹی پر ایک خونریز نسل کشی کی جنگ برپا کیے ہوئے ہے، اس جنگ میں 153,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے اور زخمی ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جب کہ 11,000 سے زیادہ افراد لاپتا ہیں، اس دوران بڑے پیمانے پر تباہی اور قحط نے بچوں اور بزرگوں کی زندگیوں کو بھی نگل لیا ہے۔ مصر کا فرعون جنرل سیسی صدر ٹرمپ کے پسندیدہ آمر ہیں۔ جس شخص کی پسند ایسی خونیں ہو اس سے اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن لے کر آئے گا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے تیزاب سے حسن دوبالا کرنا۔ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کو مزید قتل وغارت، بربادی اور مسلمانوں کی تباہی
کے سوا کچھ نہیں دے گا جو اسلامی دنیا کے لیے ان کی پالیسی ہے۔
جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے تو صدر ٹرمپ خالص تجارتی انداز میں اس معاملے کو حل کریں گے اور کچھ فوائد سمیٹ کر اسے روس کے حوالے کردیںگے۔ اس کے عوض کچھ تو وہ شام میں حاصل کر چکے ہیں اور ایک اور ڈیل کے لیے صدر پیوٹن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی جہاں تک بات ہے تو یہ بظاہر مقامی سطح پر میڈیا پر دھاک بیٹھانے کے لیے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر امریکا ہی تیسری جنگ عظیم کے لیے پیش رفت نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔ اگرآئندہ جنگیں ہوں گی تو یہ امریکا ہی ہوگا جوان کا محرک ہوگا ان کی پشت پر ہوگا اور انہیں بھڑکائے گا۔
امریکاکے حوالے سے دیکھا جائے تو ٹرمپ کے پاس ایسی کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے جس سے وہ ان مسائل کو حل کر سکے جو امریکا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے امریکا کو بھی تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، جہاں دولت کا ارتکاز اس چھوٹی سی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے جو ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جس کی وجہ سے امریکا بھی دنیا کی ان ناکام ریاستوں سے مختلف نہیں جہاں کرپٹ حکمران اور ایک منتخب اشرافیہ ملک کی دولت پر قابض ہے۔ امریکا کی دولت بڑی بڑی کارپوریشنوں کے مالکان کے قبضے میں ہے جو دنیا بھر سے لوٹی کھسوٹی گئی ہے جب کہ امریکا اور دنیا بھر کے غریب عوام ان بچے کُھچے ٹکڑوں پر گزارا کر نے پر مجبور ہیں جو یہ سرمایہ دار انہ نظام ان کی طرف پھینک دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اجارہ داری، دولت کا ارتکاز، سُود اور سُودی اندازوں پر مبنی ہے۔ کوئی ذی شعور یہ سوچ سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ سرمایہ داریت کے دائرے سے باہر نکل کر سوچ سکتے اور عمل کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود اس کا حصہ ہے اور اس نظام کی کرپشن اور جہنمی سڑاند سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ٹرمپ جہنم کی اس دنیا کا اشتہار نہیں مسلسل پروگرام کی ایک قسط ہے۔