بالآخر، بلی تھیلے سے باہر آہی گئی، صہیونی حکومت نے نام نہاد گریٹر اسرائیل کا متنازع نقشہ جاری کردیا، اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے نقشے میں فلسطین، شام، لبنان، اردن اور دیگر علاقوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے، اسرائیل کے ان صہیونی عزائم پر فلسطین، سعودی عرب، قطر، اردن، اور متحدہ عرب امارات نے متنازع نقشے کی شدید مذمت کی ہے، سعودی عرب نے ان نقشوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ناقابل قبول ہے اس طرح کے انتہا پسندانہ اقدامات اسرائیل کے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں، عالمی برادری اسرائیل کی ان خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے، فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے نقشے کو تمام بین الاقوامی قراردادوں اور قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے، اردن کی وزارت خارجہ نے گریٹر اسرائیل کے نقشے کو اشتعال انگیز اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ یہ اسرائیل کا تاریخی نقشہ ہے، قطری وزارت خارجہ نے اسرائیلی نقشے کی اشاعت کو عالمی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی دفعات کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی اقدام کو قبضے کو وسعت دینے کی دانستہ کوشش اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ایسے موقع پر نقشہ جاری کیا ہے کہ جب اسرائیلی چیرہ دستیوں کے نتیجے میں 47 ہزار بے گناہ فلسطینی شہید اور سوا لاکھ افراد زخمی ہیں اور ہنوز اسرائیلی بمباری جاری ہے جبکہ دوسری جانب جنگ بندی کے حوالے سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں بالواسطہ مذاکرات بھی جاری ہیں جس پر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ بندی کا امکان قریب ہے، اس امر کا عندیہ امریکی وزیر ِ خارجہ نے پیرس میں فرانسیسی ہم منصب جین نول بیروٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران دیا کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے مسئلے پر جلد معاہدہ ہو سکتا ہے تاہم ان مذاکرات کے ضمن میں حماس کا کہنا ہے کہ جب بھی مذاکرات کی میز سجتی ہے اور کسی معاہدے کی تکمیل تک پہنچنے کی نوبت آتی ہے، اسرائیل نئی شرائط عاید کرکے پورے عمل کو سبوتاژ کردیتا ہے، اسرائیل نے حالیہ نقشہ جاری کر کے اپنے اسی غیر مفاہمانہ طرز عمل کا اعادہ کیا ہے، اس سے قبل مارچ 2023 میں ایک اسرائیلی وزیر بیزلل اسموٹریچ نے پیرس میں ایک تقریب کے دوران گریٹر اسرائیل کے نقشے کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی، جس میں اردن کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ مملکت ِ اسرائیل تین ہزار سال قبل قائم ہوئی، تین ہزار سال قبل شاہ ساؤل، کنگ ڈیوڈ (داؤدؑ) اور شاہ سلیمان (سلیمانؑ) کے دور میں یہودی مملکت کا حصہ تھے، اور اسی بنیاد پر وہ ان علاقوں کو دوبارہ اپنی سرزمین کا حصہ سمجھتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1300 قبل مسیح، بنی اسرائیل نے فلسطین میں آباد ہونا شروع کیا، دو صدیوں کی سخت لڑائی کے بعد وہ اس سرزمین پر قبضہ قائم کرنے کے قابل ہوئے حالانکہ وہ فلسطین کے اصلی باشندے نہیں تھے، انہوں نے یہاں بسنے والی قوم کا صفایا کرکے اسی طرح اس پر قبضہ جمایا تھا جیسے انگریزوں نے امریکی سرزمین پر قبضہ کرنے کے لیے ریڈ انڈینز کا صفایا کیا تھا بعدازں آٹھویں صدی قبل از مسیح میں اَسیریا نے شمالی فلسطین پر حملہ کر کے اسرائیلیوں کو شکست دی اور ان کی جگہ مختلف قوموں کو آباد کیا، جن میں اکثریت عربوں کی تھی، چھٹی صدی قبل از مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کیا، جہاں سے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا گیا، اس نے بیت المقدس کو تباہ و برباد کر کے ہیکل ِ سلیمانی کو اس طرح مسمار کیا کہ اس کے آثار تک باقی نہ رہے، طویل عرصے کی جلاوطنی کے بعد، ایرانیوں کے دور میں سائرس دوم نے بابل کو فتح کرنے کے بعد 539 قبل مسیح میں یہودیوں کو دوبارہ جنوبی فلسطین آنے اور وہاں آباد ہونے کا موقع دیا۔ 70 عیسوی میں رومیوں نے یہودیوں کی بغاوت کی وجہ سے بیت المقدس اور ہیکل ِ سلیمانی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، 135 عیسوی میں ایک اور بغاوت کو کچلنے کے بعد رومیوں نے فلسطین سے تمام یہودیوں کو بے دخل کردیا، ان کی بے دخلی کے بعد جنوبی فلسطین میں بھی عرب قبائل آباد ہوگئے، جیسا کہ شمالی فلسطین میں آٹھ سو سال پہلے ہوا تھا۔ اسلام کے آغاز سے قبل پورا علاقہ عرب قوموں سے آباد تھا، اور رومیوں نے بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک قانوناً ممنوع کر رکھا تھا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی آبادی تقریباً ناپید ہو چکی تھی۔ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت راز نہیں رہ جاتی کہ یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے نسل کشی کا راستہ اختیار کیا تھا، عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً دو ہزار سال سے آباد تھے۔ اس ناقابل ِ انکار تاریخی حقیقت کے باوجود صہیونی زعما کا پھر بھی یہی دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے آباواجداد کی میراث ہے جو انہیں عطا کی گئی ہے اور اب اسی دعوے کی جگالی اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گریٹر اسرائیل کے نقشے کا اجراء صہیونی قوتوں کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کی کڑی ہے مگر یہ اس کی تمہید نہیں، اس منصوبہ بندی کا پہلا مرحلہ وہ تھا جب دنیا بھر سے یہودیوں کا کر فلسطین میں غیر قانونی طور پر آباد کیا گیا اور1917ء میں برطانیوی وزیر ِ خارجہ نے اعلانِ بَالفورکے ذریعے عربوں کو یقین دلایا گیا کہ ہم عربوں کی ایک خودمختار ریاست بنائیں گے، پھر 1922 میں مجلس اقوام کے تحت فلسطین کو برطانیہ کے اِنتداب میں دے دیا گیا۔ دوسرا مرحلہ وہ تھا جب 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ اور پھر 14 مئی1948ء اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا تیسرا مرحلہ وہ تھا جب 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے دیگر عرب ریاستوں کی زمین پر قبضہ کیا۔ اپنے منصوبے کے چوتھے مرحلے میں صہیونیوں نے 19 اگست 1969 میں مسجد ِ اقصیٰ کو نذرِ آتش کیا، اب حالیہ نقشے کا اجراء گریٹر اسرائیل کے پانچویں مرحلے کا حصہ ہے اب آگے اسرائیل کے کیا عزائم ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ محض ایک نقشے کا اجراء نہیں اسرائیل کے حقیقی عزائم کا آئینہ دار ہے جس کے لیے وہ دوہزار سال سے منتظر تھے اور جس کے لیے گزشتہ ایک صدی سے کام کر رہے ہیں، اسرائیل نے اپنے جن توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار کیا ہے اگر اس پر بند باندھے کے اقدامات نہ کیے گئے تواس ڈرامے کے اگلے سِین کا منظر کیا ہوگا، اس کے لیے نگاہوں کو پردہ اٹھنے کا منتظر نہیں رہنا پڑے گا بلکہ مسلم حکمرانوں کو اپنی آنکھوں پر پڑے پردے کا علاج کرانا پڑے گا، اب وقت آگیا ہے کہ اس منہ زور طوفان بلاخیز کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم حکمران امریکا کی کاسہ لیسی، فوجی طالع آزما اپنے ہی عوام کو فتح کرنے، عرب ریاستیں اپنی دولت اور سطوت کے اظہار کے لیے برج و مینار، میگا سٹی بنانے اور عرب شاہ زادے باز، شکرے و ہرن کا شکار کرنے کے بجائے پیش آمدہ طوفان کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کریں، کیونکہ پر امن بقائے باہمی کے آفاقی اصولوں کو اسرائیلی عزائم نے ملیا میٹ کردیا ہے، اور بلی کھل کر تھیلے سے باہر آگئی ہے۔