عطا آباد جھیل شمال کی ان جھیلوں میں سے ایک ہے جو سیاحوں کو آسانی سے دستیاب ہے۔ یہ جھیل 2010 میں پہاڑی تودہ گرنے سے حادثاتی طور پر وجود میں آئی تھی۔گرمی میں اس جھیل کے پانی کشتیوں کی موٹروں سے ہلچل مچاتے ہیں تو چھینٹے قراقرم ہائی وے سے جا ٹکراتے ہیں اور سردی میں یہی جھیل برف کے فرش کے ساتھ کھیل کے میدان میں بدل جاتی ہے۔ عطا آباد جھیل پر طرح طرح کے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔سطح سمندر سے 7273 فٹ بلند اور 80 فٹ گہری خلتی جھیل سٹرک کے کنارے آباد ہے اس لیے جب یہ برف کے میدان میں بدلتی ہے تو ایک آباد سٹیڈیم کا روپ دھار لیتی ہے۔ہر سال جنوری میں یہاں سپورٹس میلہ سجتا ہے جسے دیکھنے کے لیے ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔سردی کے موسم میں جم کر میدان بن جانے والی جھیلوں میں پھنڈر جھیل بھی شامل ہے مگر یہاں مقامی بچوں کے علاوہ کوئی باہر سے کھیلنے نہیں آتا۔ شہر سے دوری بھی ایک سبب ہے کہ یہاں کوئی فیسٹیول نہیں ہوتا۔ سکردو کی اپر کچورا جھیل بھی کھیل کے میدان میں بدل کر کھلاڑیوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے ۔سکردو کی اپر کچورا جھیل بھی کھیل کے میدان میں بدل کر کھلاڑیوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے ۔شیندور جھیل بھی کھیل کا شاندار میدان بن جاتی ہے مگر وہاں تک پہنچا دلدل کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔سردی میں جم کر پتھر ہو جانے والی جھیلیں تو سیکڑوں ہیں مگر میدان صرف انہی جھیلوں کے آباد ہوتے ہیں جہاں تک راستے جاتے ہیں۔