اسلامی انقلاب کا آغاز… آج سے

247

میں: تم نے گزشتہ نشست میں سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث ِ رسول ؐ کا حوالہ دے کر انقلاب کی ذمے داری ہر کلمہ گو مسلمان پر بھی عاید کرد ی جبکہ میرے خیال سے اس حدیث میں ایمان کے درجات کی وضاحت کی گئی ہے؟

وہ: بالکل ایسا ہی ہے۔ لیکن ایمان کے ان درجوں کا تعلق بنیادی طور پر اسی ذمے داری سے تو ہے۔ کیا کوئی مسلمان یہ چاہے گا کہ اسے کم تر درجے کا مسلمان پکارا جائے۔ کیا تم گوارا کرو گے کہ تم کسی بستی کے مکین ہو لیکن تم اس جگہ سب سے کم تر درجے کی زندگی گزار رہے ہو تمہاری کوئی حیثیت کوئی سنوائی نہ ہو، کسی کالج یونیورسٹی سے آخری درجے کی ڈگری لے کر فارغ ہوئے ہو اور تمہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے کہیں داخلے کا اہل شمار نہ کیا جائے بلکہ جہاں جائو دھتکار کے نکال دیے جائو یا کسی ادارے میں سب سے کم تر درجے کی ملازمت کر رہے ہو جہاں گدھوں کی طرح کام کرنے کے باوجود صرف جھڑکیاں ہی تمہارا نصیب ہوں۔ تم کیا کوئی بھی شخص ایسا نہیں چاہے گا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ۹۰ فی صد سے زائد مسلمان ایمان کے کم ترین درجے پر ہونے کے باوجود اپنی اس حالت پر راضی اور بظاہر خوش بھی ہیں؟

میں: مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم مسلمانوں کی مسلسل بے عملی کا نتیجہ ہے اور اب یہ ہماری ایک مستقل نفسیاتی کیفیت بن چکی ہے، اگر اس ضمن میں کبھی کوئی نصیحت کان میں پڑ جائے تو کہتے ہیں کہ بھائی ہم ان کی برابری کیسے کرسکتے ہیں وہ تو بڑے ولی اللہ لوگ تھے اور ہم ٹھیرے سدا کے گناہ گار۔ وہ بڑے مضبوط دل والے تھے، ہم تو بہت کمزور ہیں۔

وہ: تم نے وہ فارسی مثَل سنی ہے نا ’عذر گناہ بدتر از گناہ‘۔ یہ تو خود کو دھوکہ اور جھوٹی تسلی دینے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ کیوں کہ لا الہ کا کلمہ تو فرد کو اندر سے اتنی قوت اور توانائی فراہم کردیتا ہے کہ دل کی دنیاہی بدل جاتی ہے، سیدنا بلالؓتپتی ریت پر سینے پر بھاری پتھر لیے بھی احد احد پکارتے ہیں۔

میں: تم پھر وہی پرانی مثالیں لے کے بیٹھ گئے، بھائی جان آج کی دنیا بہت بدل گئی ہے۔ میں تمہاری اس بات سے متفق ہوں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ مجموعی طور پر ہم تمام مسلمانوں کا ایمان کمزور ہوگیا ہے، مگر یہاں تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ہر مہینے بجلی اور گیس کا بل ادا کرنا عذاب ہوگیا ہے، اور تم ہو کہ اپنی علامہ گیری کی دکان چمکانے میں لگے ہو کہ کسی طرح مسلمانوں کی قوت ایمانی کو جوش آجائے، لوگ تلواریں لے کر سڑکوں پر نکل آئیں اور فضا انقلاب انقلاب کے نعروں سے گونج اٹھے۔

وہ: تم تو خوامخواہ جذباتی ہوگئے، میرے کہنے کا مقصد تو بس اتنا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور اپنی اپنی ایمانی کیفیات کا کلمہ طیبہ کے حوالے سے از سرِ نو جائزہ لیں، ورنہ اپنے اوپر حملہ آور یا خطرے کو دیکھتے ہی شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر صدیوں سے اپنے مٹنے کا تماشا تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ جہاں تک معاملہ طاقت کے بل پر اسلامی قوانین کے زبردستی نفاذ کا ہے تو یہ عمل تو اسلام کی روح کے سراسر خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر پیغمبر کی طرح رسول ؐ کو بھی صرف پیغام پہنچانے کی ذمے داری سونپی تھی، زبردستی کلمہ پڑھا کے مسلمان کرنے کا حکم تو کسی موقع پرنازل نہیں کیا۔ لہٰذا ایران میں جو کچھ ہوا یا افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اسے انقلاب ایران اور انقلاب طالبان تو ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن ایک اسلامی معاشرے کے لیے لازم وملزوم رواداری کی خوبی اور انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ جیسے اصولوں پر عمل ان دونوں خطوں میں ناپید ہے۔ ویسے یہ ایک علٰیحدہ موضوع ہے اس کو کسی اور نشست پر اٹھا رکھتے ہیں۔ رہی بات اسلام کے اختیاری اور غیر اختیاری ہونے کی تو صورت حال کچھ یوں ہے کہ ہم تو عبدالقدوس کے گھر پیدا ہوگئے تھے، بس اسی لیے ہم عبدالغفار، عبدالستار، اسلم، جمیل، قاسم، جمشید اور فلاں فلاں کے نام سے پکارے جانے لگے، یوں اسلام کو پورے شعور اور اپنی خواہش کے مطابق قبول یا اختیارکرنے کا تو سوال ہی نہیں اُٹھتا اور اس کے نتیجے میں دل کی دنیا کا بدل جانا بظاہر ایک مشکل مرحلہ ہے۔

میں: یعنی جو شخص پیدائشی مسلمان ہے اس کے دل کی دنیا ابھی تک بدلی ہی نہیں، یا اس کے دل میں ایمان کی شمع بہت مدھم جل رہی ہے؟

وہ: میرے خیال سے مجموعی طور پر صورت حال کم وبیش ایسی ہی ہے، لیکن اصل میں آج کے مسلمان کی کمزور ایمان کی وجہ وہ ماحول ہے جو ہر قدم پر اسے مادی اشیا کے حصول کے رستے پر اس فانی دنیا کے قریب اور خدا سے دور لے جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم خدا شناس ہیں نہ خود آشنا۔ آج تو ہر شخص پاگلوں کی طرح اس ملک سے باہر جانے کے لیے دوڑیں لگا رہا ہے، شاید ہمارے سجدے بھی اظہار بندگی کے بجائے کسی دنیاوی خواہش کی تکمیل کا وسیلہ بن کے رہ گئے ہیں۔ بقول اقبالؔ

جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی ماحول اوردنیا میں رہتے ہوئے بھی بے شمار مسلمان ہیں جن کے دل ایمان سے لبریز اورقرآن کے نور سے منور ہیں۔انہوں نے رسولؐ کی سیرتِ مبارکہ کو صرف اپنی معلومات میں اضافہ کا ذریعہ نہیں بنایا،بلکہ اس پیغام کو جو بلال ؓ کی احد احد کی صدائوں سے بلند ہورہاتھا اس کی گونج کو اپنے دل کی آوازاورشخصیت کا اظہار بناتے ہوئے تمام دنیا میں پہنچانے کا عملی نمونہ بن کے دکھایاہے۔

میں:لیکن آج کے پرآشوب دور میں ایمان و عمل کی تھوڑی بہت جتنی بھی روشن مثالیں ہیںوہ محض ان برگزیدہ بندوں کی انفرادی ریاضت وجستجو کا انعام ہیں جسے انہوں نے اس عارضی دنیا میں اپنی حیثیت کوپہچان کرخدا شناسی کے ذریعے حاصل کیاہے۔اس کے باوجودہم دنیاکی کسی بھی اسلامی ریاست میںایک بھی ایسی اجتماعیت،کوئی ایک شہر،ہزار دوہزار افراد پر مشتمل کوئی بستی یا ایک چھوٹی سی آبادی کی ہی بنیاد رکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے جسے ایک مکمل اورمثالی اسلامی معاشرہ کہا جاسکے۔اورباقی دنیا کو فخر کے ساتھ یہ بتاسکیں کہ ایسے ہوتے ہیں مسلمان، اسے کہتے ہیں اسلامی معاشرہ۔جہاں عورت کی تعلیم پر کوئی قدغن ہے،نہ ہی سماج میں اس کے مقام واحترام میں کوئی کمی،عورت کا احترام لفظوں سے نہیں، نظریں نیچی رکھ کر کیا جاتا ہے، بینکاری کا نظام بلاسود بینکاری کی دل فریب جملے بازیوں اور خوشنما لبادے کے بجائے عملی بنیادوں پرقرآن اور رسولؐ کے بتائے ہوئے نفع ونقصان کے شرعی اصولوں اور طریقوں کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ہماری پانچ سے دس ہزار نفوس پر مشتمل اس آبادی میں انسان توکیا کتا بھی بھوکا نہیں سوتا۔ ہماری اس بستی کی ایماندار انتظامیہ نے ایک ایسی بی سی بھی ڈال رکھی ہے جس میں دوہزار گھروں میں سے ہر گھر سے صرف 100روپے ماہانہ لیے جاتے ہیں اورہر مہینے کسی ایک گھر کو دولاکھ روپے کی رقم ادا کردی جاتی ہے۔

یہ چھوٹی سی ریاست ہرسال 100افراد کو سرکاری خرچ پرحج پر بھیجنے کی ذمے داری بھی ادا کرتی ہے۔ کسی سرکاری دفترکا کوئی بڑا افسریا معمولی ملازم، سڑک پر کھڑا سپاہی یا تھانے میں براجمان محافظ رشوت لینے کے جرم میں اسی وقت اپنی نوکری سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے اورصرف اتنا ہی نہیں بستی کے مرکزی چوراہے پرلگے قد ِآدم اشتہاراتی بورڈز پر ایسے تمام افراد کی بڑی بڑی تصاویر ان کے ناموں اورجرم کی تفصیل کے ساتھ کم ازکم ایک مہینے تک نشان ِ عبرت بنی رہتی ہیں۔ہر محلے میں ایک لائبریری بنائی گئی ہے جہاں عالم دین حضرات قرآن کی درست تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ اورتشریح بھی سمجھاتے ہیں۔

یہ تو ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے محض چند تجاویز اورمشورے ہیں ورنہ کرنے کے کام تو بے شمار ہیں۔اوریہ سب محض ایک خیالی اسکیم نہیں،مذکورہ بالاتمام باتوں کو بآسانی عملی شکل دے کر ریاست چھوٹے چھوٹے پاکٹس کی شکل میں اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔اوراگرریاست ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر ہر مسلمان کو انقلابی بننا پڑے گا۔اسے انفرادی اوراجتماعی ہر سطح پر ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،خود کو ایمان کے تیسرے درجے سے نکال کر پہلے درجے پر لیکر آنا ہوگا۔اورجس مغربی تہذیب اوربودوباش کواپنی منزل ومقصود سمجھ کرخودسے دھوکا کھارہے ہیں،اسے اپنے دلوں سے نکال کر اللہ اوراس کے رسولؐ کی بنائی ہوئی ترکیب اوراصلاحی اسکیم کو اپنے گھر اورسماج میں رائج کرنا ہوگا۔کسی اللہ کے بندے کے انتظار کے بجائے خود اللہ کا بندہ بن کر دکھانا ہوگا۔

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی