مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور حالیہ بیانات

266

مولانا فضل الرحمن، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ، ایک زیرک سیاست دان اور پاکستان کی سیاست کا ایک اہم کردار ہیں۔ ان کی حالیہ پریس کانفرنس نے ملک کی جمہوری اور انتخابی خامیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مولانا نے جمہوریت کو ’’ڈھونگ‘‘ قرار دیتے ہوئے اقتدار کے اصل مراکز کی جانب اشارہ کیا اور عام انتخابات کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا کہ کیا 2024 کے انتخابات شفاف تھے؟ موجودہ حکمرانوں کے پاس عوام کا حقیقی مینڈیٹ ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے موجودہ جمہوری نظام کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے محض ایک دکھاوا قرار دیا۔ ان کے مطابق اصل طاقت ’’کسی اور‘‘ کے ہاتھ میں ہے، جب کہ سیاست دان آئین اور اصولوں پر سمجھوتے کر لیتے ہیں۔ اس دعوے نے عوام کے ذہن میں یہ سوال پیدا کیا ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت کتنے خودمختار ہیں؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جمہوری ادارے ہمیشہ بیرونی دباؤ کا شکار رہے ہیں۔ مولانا کی یہ تنقید ملک کے جمہوری ڈھانچے میں موجود خامیوں کی درست نشاندہی کرتی ہے اور یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ یہ نظام ایک گورکھ دھندہ ہے۔ مولانا نے بلوچستان کے دو حلقوں، پی پی 7 اور پی پی 45، کی مثال دے کر انتخابی عمل میں سنگین مسائل کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق نادرا کی رپورٹ میں یہ واضح ہوا کہ پی پی 7 میں صرف 2 فی صد ووٹوں کی تصدیق ہو سکی، جب کہ 98 فی صد ووٹ مشکوک ہیں۔ پی پی 45 کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جیتنے والا امیدوار کسی ایک پولنگ اسٹیشن سے بھی اکثریت حاصل نہ کر سکا، جو انتخابی عمل کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے انتخابی نظام کے تحت نتائج ہمیشہ ایسے ہی آتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ اگر انتخابات شفاف نہیں ہوں گے تو عوامی اعتماد کیسے بحال ہوگا؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ رویہ عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ جب عوام کو لگے کہ ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں تو وہ جمہوریت سے متنفر ہو جائیں گے۔ جمہوریت کا حقیقی مطلب عوام کی حکمرانی ہے، لیکن جب عوام کو یہ محسوس ہو کہ ان کا کردار محض رسمی ہے، تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ مولانا نے مدارس کے نظام تعلیم میں مداخلت پر بھی سخت اعتراض کیا۔ ان کے مطابق مدارس کسی صورت اپنے نظام میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان میں مدارس صرف مذہبی تعلیم کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی استحکام اور نوجوان نسل کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں ترتیب دے جو تعلیمی نظام کو جدید بنائیں لیکن مدارس کے خدشات کو بھی دور کریں۔ لیکن ان باتوں کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست ہمیشہ اقتدار کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ان کی سیاست کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں کہ ان کی ترجیحات ہمیشہ ذاتی اور خاندانی مفادات کے تابع رہی ہیں۔ عوامی خدمت اور قومی مسائل کے حل کے بجائے وہ اقتدار کے حصول اور سیاسی اتحادوں کے ذریعے فائدہ اٹھانے تک ہی محدود رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی تشکیل سے لے کر پی ڈی ایم کی قیادت تک، مولانا نے ہر دور میں سیاسی اتحاد قائم کیے اور اپنے اثر رسوخ کو مضبوط کیا۔ وہ اقتدار میں شمولیت کے لیے مختلف جماعتوں کے ساتھ سمجھوتے کرتے رہے ہیں، چاہے وہ نظریاتی طور پر ان کے قریب ہوں یا نہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور یہاں تک کہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کی کوشش کی، حالانکہ ان کی جماعت کا عمران خان کے ساتھ نظریاتی اختلاف رہا اور ایک وقت میں وہ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام بھی دیگر خاندانی جماعتوں کی طرح ایک مخصوص خاندان کی میراث بن چکی ہے۔ جس طرح نواز لیگ اور پیپلز پارٹی خاندانی سیاست کی مثالیں ہیں۔ مولانا کے سمدھی گورنر بن جاتے ہیں، بیٹے وفاقی وزیر، بھائی عطاء الرحمن سینیٹر اور پارٹی عہدے دار، لطف الرحمن خیبر پختون خوا میں اسمبلی رکن، اور مولانا کی سالی شاہدہ اختر رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی پوری سیاست اسی اقربا پروری کے گرد گھومتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود پارٹی کے سربراہ تھے، اور ان کے انتقال کے بعد یہ عہدہ مولانا فضل الرحمن کو منتقل ہوا۔ امکان یہی ہے کہ مستقبل میں یہ عہدہ ان کے بیٹے کو منتقل ہوگا۔ اسی لیے ان پر یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ وہ اصولوں کے بجائے ذاتی و سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ان کی سیاست کو الگ رکھتے ہوئے، اصولی طور پر مولانا فضل الرحمن کے حالیہ بیانات نے ملک کے جمہوری، انتخابی، اور سیاسی مسائل کو ایک بار پھر عوام کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتیں مل کر ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ سوچیں اور عمل کریں۔ یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتیں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے سنجیدگی سے سوچیں اور عملی اقدامات کریں۔ عوام کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور مخصوص سیاست دانوں کا ’’سیاست‘‘ کے نام پر کھیل کب تک جاری رہے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے، کیونکہ اگر اس کا جواب تلاش نہ کیا گیا تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ بلوچستان سے خیبر پختون خوا تک حالات تشویشناک ہیں، جبکہ امریکا، بھارت اور دیگر دشمن عناصر موقع کی تاک میں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے ساتھ جاری کھیل اور تماشے کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کیا جائے۔