بنگلا دیش: تازہ حالات اور محبت کا نیا باب

92

حالیہ چند ماہ میں، حسینہ واجد حکومت کی تبدیلی کے بعد، بنگلا دیش کے عوام اور حکومت کے رویے میں پاکستان کے لیے ایک نئی محبت اور خلوص کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔ عوام میں پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات کو دوبارہ سے زندہ کرنے کا جذبہ ابھر رہا ہے۔ اس کے برعکس، بھارت کے ساتھ ماضی میں پیدا ہونے والے مسائل اور موجودہ تنازعات کے باعث عوامی رائے مکمل طور پر منفی ہو چکی ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات میں اس حالیہ گرم جوشی نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ تاریخ کے دھارے کو محبت اور بھائی چارے کی طاقت سے بدلا جا سکتا ہے۔ یہ نیا باب یقینی طور پر دونوں ممالک کے روشن مستقبل کی طرف ایک امید افزا اشارہ ہے۔ مشرقی پاکستان، جوکہ 1971 تک پاکستان کا ایک اہم حصہ تھا اور بعد ازاں بنگلا دیش کے نام سے ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آیا، یہ کبھی اپنی تنوع ثقافت، قدرتی حسن، اور اسلامی ورثے کے لیے مشہور تھا۔ یہ خطہ پاکستان کی تاریخ، جدوجہد ِ آزادی، اور قائداعظم محمد علی جناح کے افکار سے گہرا تعلق رکھتا تھا۔ مشرقی پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال تھا۔ یہاں کے دریاؤں، وادیوں، اور جنگلات نے اس خطے کو ایک دلکش منظر عطا کیا تھا۔ دریائے گنگا، جمنا، اور میگھنا نہ صرف زراعت اور ماہی گیری کے اہم وسائل تھے بلکہ ان کے کنارے کاشت کاری اور سیاحت کے مواقع بھی فراہم کرتے تھے۔ ’’سندربن‘‘ کے مینگرو جنگلات اور بنگال ٹائیگر دنیا بھر میں مشہور تھے۔ یہ جنگلات ماحولیاتی توازن کا اہم حصہ تھے اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ اس کے علاوہ چٹاگانگ کے پہاڑ اور جھیلیں فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے جنت کا منظر پیش کرتی تھیں۔

مشرقی پاکستان کی ثقافت، روایتی بنگالی تہذیب اور اسلامی اقدار کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی خوش اخلاقی، مہمان نوازی، اور سماجی ہم آہنگی کے لیے مشہور تھے۔ شادی بیاہ کی تقریبات، میلادالبنی اور روایتی تہواروں میں خوشی کے ساتھ دینی روایات کی جھلک دیکھنے کو ملتی تھی۔ خواتین رنگین ساڑھیوں میں ملبوس ہوتی تھیں، اور مرد عام طور پر دھوتی یا کرتا زیب تن کرتے تھے۔ دیہی علاقوں میں لوگ سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔ زراعت، ماہی گیری، اور دست کاری ان کا بنیادی ذریعہ معاش تھا۔ دیہی زندگی کی یہ سادگی شہری علاقوں کی ابھرتی ہوئی تیز رفتار ترقی سے مختلف مگر ہم آہنگ تھی۔ شہری علاقوں میں تعلیمی ادارے، بازار، اور تجارتی مراکز ترقی کر رہے تھے لیکن لوگ اپنی تہذیب وثقافت اور روایات سے جڑے ہوئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی بنگالی زبان یہاں کے لوگوں کی شناخت کا اہم حصہ تھی۔ تاہم اردو کو قومی زبان کے طور پر اہمیت دی جاتی تھی، جبکہ عربی زبان کو مذہبی تعلیمات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بنگالی زبان اپنی شیرینی اور ادب کے لیے مشہور تھی، اور اس زبان میں تخلیق ہونے والے گیت، کہانیوں، اور شاعری نے قومی ثقافت کو تقویت دی۔ شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ جدید سہولتوں سے استفادہ کرتے تھے، جبکہ دیہی علاقوں میں روایتی طرزِ زندگی غالب تھا۔ یہاں کے لوگ نہایت جفاکش اور محنتی اور محب وطن تھے، اور ان کا رہن سہن سادہ لیکن دلکش اور اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اصولوں سے گہرا متاثر تھا۔ مشرقی پاکستان میں اسلامی تہوار عیدالفطر، عیدالاضحی، اور میلاد النبی خاص اہتمام سے منائے جاتے تھے۔ ان مواقع پر مساجد میں خصوصی عبادات اور اجتماعی دعاؤں کا انعقاد ہوتا تھا۔ دیہات اور شہروں میں لوگ ایک دوسرے کو تحفے دیتے اور مل بیٹھ کر خوشی مناتے تھے۔ بنگالی ثقافت کے تحت نئے سال (پہلا بیساکھ) کا تہوار بھی نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ اس دن دیہات اور شہروں میں میلے لگتے تھے، جن میں موسیقی، رقص، اور روایتی کھانوں کی بہار ہوتی تھی۔ کشتی رانی، مٹی کے برتنوں کی نمائش، اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں ان میلوں کا خاصہ تھیں۔

ڈھاکا، مشرقی پاکستان کا دارالحکومت ہونے کے باعث تعلیمی، ثقافتی، اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہاں کی گلیاں اور بازار زندگی کی گہما گہمی سے بھرپور ہوتے تھے۔ چٹاگانگ اپنی بندرگاہ اور تجارتی اہمیت کے لیے مشہور تھا، جبکہ دیگر شہر جیسے راج شاہی اور کھلنا زراعت اور دست کاری کے لیے جانے جاتے تھے۔ دیہی علاقوں میں زندگی سادہ مگر پْرسکون تھی۔ یہاں کے لوگ زراعت پر انحصار کرتے تھے۔ گاؤں کے لوگ آپس میں بھائی چارے کے جذبے سے جڑے ہوتے تھے، اور ان کی زندگی اسلامی روایات اور اقدار سے متاثر تھی۔ اسلام مشرقی پاکستان کے لوگوں کی زندگی کا محور تھا۔ ہر گاؤں میں ایک مسجد مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ مساجد ان کے روحانی سکون اور سماجی ہم آہنگی کا مرکز تھیں۔ ہر گاؤں اور شہر میں خوبصورت مساجد موجود تھیں، جہاں نماز، قرآن کی تعلیم، اور دیگر دینی سرگرمیاں منعقد کی جاتی تھیں۔ مساجد ان کے لیے روحانی تربیت کا ایک اہم ذریعہ تھیں۔ رمضان المبارک کے دوران مساجد میں خاص رونق ہوتی تھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تراویح اور اعتکاف میں شریک ہوتے تھے۔ قرآن کی تعلیم بچوں کی ابتدائی تربیت کا حصہ تھی، اور ہر گھر میں قرآن پاک کی تلاوت معمول کا حصہ تھی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے تحریک ِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی ان کا جذبہ برقرار رہا۔ 14 اگست کو یومِ آزادی پورے جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ قومی پرچم، ملی نغمے، اور تقاریب اس دن کی خاص بات تھیں۔ پاکستان کے لیے یہ محبت ہر شعبے میں جھلکتی تھی، چاہے وہ تعلیم ہو، زراعت ہو، یا صنعت۔ قائداعظم محمد علی جناح مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک رہنما ہی نہیں بلکہ امید کی کرن تھے۔ انہیں قائداعظم محمد علی جناح سے والہانہ محبت تھی۔ ان کی قیادت میں مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے ایک آزاد ریاست کے خواب کو حقیقت میں بدلا۔ قائداعظم کے اصول ایمان، اتحاد، اور تنظیم کو مشرقی پاکستان کے لوگوں نے اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔

قائداعظم کی تصویر ہر گھر، دفتر، اور اسکول میں آویزاں تھی۔ ان کی شخصیت نے مشرقی پاکستان کے عوام کو یہ یقین دلایا کہ پاکستان ان کے عقائد اور ثقافت کا محافظ ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام علامہ محمد اقبال کے افکار اور شاعری سے گہری محبت رکھتے تھے۔ اقبال کے فلسفہ ٔ خودی اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علٰیحدہ مملکت کے خواب نے مشرقی پاکستان کے عوام کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کیا۔ اقبال کے اشعار جن میں اتحاد، عمل، اور ایمان کا درس دیا گیا، مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں، محافل، مجالس اور اجتماعات میں باقاعدگی سے سنائے جاتے تھے۔ مشرقی پاکستان زراعت اور صنعت میں ترقی کر رہا تھا۔ جُوٹ کی پیداوار اس خطے کی معیشت کا اہم جزو تھی، جو عالمی سطح پر مشہور تھی۔ تعلیمی ادارے بھی ترقی کی طرف گامزن تھے، اور ڈھاکا یونیورسٹی علم و تحقیق کا مرکز بن کر ابھر رہی تھی۔ مشرقی پاکستان اپنی ثقافت، قدرتی حسن، اور اسلامی ورثے کی وجہ سے ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتا تھا۔ یہاں کے لوگوں کی قرآن، مساجد، پاکستان، اور قائداعظم محمد علی جناح سے محبت ان کے ایمان اور اتحاد کی عکاسی کرتی تھی۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایک قوم کی طاقت اس کے اتحاد میں مضمر ہے۔ اگرچہ مشرقی پاکستان اب بنگلا دیش بن چکا ہے تاہم اس نے پھر سے بنگلا دیش سے مشرقی پاکستان کی جانب اپنے سفر کا ایک شاندارآغاز کیا ہے۔ اسلامی اخوت، ثقافتی ہم آہنگی، اور مشترکہ تاریخ ومفادات کی بنیاد پر دونوں اقوام کو ایک بار پھر سے یک جان دوقالب بنا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کا شعر موجودہ تناظر میں صادق آتا ہے کہ: ’’منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک؍ ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک‘‘ یہ شعر اتحاد اور یگانگت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ مشترکہ تاریخ، ثقافت، اور عقیدے کی بنیاد پر بھائی چارہ قائم رہنا چاہیے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے دوبارہ اتحاد نہ صرف دونوں اقوام کی اقتصادی ترقی اورعوام کی خوشحالی کا ضامن ثابت ہو گا بلکہ دنیا کے سامنے ایک بہترین مثال بھی قائم کرے گا کہ کس طرح آپس کے اختلافات کو محبت، اتحاد و اتفاق کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔