قطر میں بھارتی جاسوس ڈاکٹرعافیہ سے زیاد ہ خوش نصیب؟

106

گزرے چھے ماہ کے دوران بھارت کے وزیر ِ خارجہ ایس جے شنکر قطر کے تین دورے کر چکے ہیں اور اب بھی وہ امریکاسے براہ راست قطر گئے ہیں جہاںوہ امیر ِقطر اور دیگر علیٰ حکام سے بھی ملاقات کر رہے۔ ان کے دورے کے مقاصد کیا ہو سکتے اس بارے میں یہ معلوم ہوا ہے حسب روایت اپنے بھارتی نیوی کے (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری کی رہائی کے سلسلے از سر نو سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ ہے پورنیندو تیواری کو ہر صورت روان سال کے ختم ہو نے قبل رہا کرا لیں گے۔ یہ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ میں 8 بھارتی سابق نیول افیسر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا جرم کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔ ان افسران میں بھارتی نیوی کے (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری، کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل، کمانڈر (ریٹائرڈ) بیرندر کمار ورما، کیپٹن (ریٹائرڈ) سوربھ وششت، کمانڈر (ریٹائرڈ) سوگناکر پکالا، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال اور سیلر راگیش قطر میں داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی نام کی ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان 8 افراد پر پہلے الزام پھر میں ثبوت کے بعد قطری حکومت ان بھارتیوں کے بارے میں یہ بتایا تھا کہ قطر میں داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی نام کی ایک نجی کمپنی میں یہ کام کرتے ہوئے اسرائیل کے لیے جاسوسی کر رہے تھے اور آبدوز کی تیاری کی ساری معلومات بھارت کی مدد سے اسرائیل کو فراہم کی جارہی تھی۔ شروع شروع میں بھارت اس سلسلے میں مکمل طور سے خاموش تھا۔ دسمبر 2022ء میں بھارت نے انکار کردیا تھا کہ بھارتی اسرائیل کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔ لیکن قطر کی حکومت نے بھارتی انکار کے باجود مکمل ثبوت کے بعد 8 بھارتی نیول افسران اور دیگر افراد کو سزائے موت دینے کا اعلان کر دیا تھا، 30 اگست 2022ء کو قطری حکام نے ان آٹھ انڈین شہریوں کو حراست میں لیا اور اس وقت سے وہ قید تنہائی میں ہیں۔ اگست 2023ء تک ایس جے شنکر بھارت سے اعلیٰ سطح پر رابطہ کرتے ہوئے سفارت کاری شروع کر دی تھے۔ اس سفارت کاری کے نتیجے میں مختلف عالمی فورم پر مودی اور امیر قطر کی ملاقات ہوئی اور آٹھ میں سے 7 بھارتیوں کو سزائے موت کے عدالتی فیصلے کے باوجود رہا کرکے بھارت بھیج دیا گیا تھا لیکن ایک سزائے موت پانے والے ریٹائرڈکمانڈر پورنیندو تیواری کو قطر نے رہا نہیں کیا تھا۔

ایس جے شنکر اب ریٹائرڈ پورنیندو تیواری کی رہائی کے لیے کوشش میں مصروف ہیں۔ اس کیس کے آغاز پر دوحا سے اس معاملے پر نہ تو قطر کی حکومت کی طرف سے کوئی بیان آیا ہے اور نہ ہی انہوں نے قطری میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خبر جاری کی تھی۔ بھارت کی جانب سے قطر کی وزارت اطلاعات، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو بھیجی گئی ای میلز کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جس کے بعد بھارت نے ساری دنیا میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ قطر انسانی حقوق کی حالت پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں اور وہاں کا میڈیا حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق امیر ِ قطر پر تنقید کرنا شروع کر دیا۔ قطری کے قانون کے مطابق پرچم کی توہین اور مذہب اسلام پر تنقید قطر میں چند بڑے جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ ان تمام حربوں سے بھارت کو فائدہ ہوا اور قطر نے جاسوسی میں ملوث 7 بھارتیوں کی سزائے موت ختم کر کے رہا کر دیا۔ اس سلسلے میں مودی نے امیر ِ قطر بھی ملاقات کی اور ان کو 2025ء میں بھارت آنے کی بھی دعوت دے ڈالی اور اب اسی سال وہ بھارت کا دورہ کر یں گے لیکن بھارت سے موصول ذرائع بتا رہے ہیں کہ امیر قطر کی بھارتی دورے کی اولین شرط یہ ریٹائرڈ پورنیندو تیواری کی رہائی کو یقینی بنائیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ قطر میں 70 ہزار سے زیادہ انڈین کام کرتے ہیں۔ انڈین وزارت خارجہ کے مطابق انڈیا میں مائع قدرتی گیس کی کل سپلائی کا نصف سے زیادہ حصہ قطر سے آتا ہے۔ سال 2020-21 میں قطر کے ساتھ انڈیا کی باہمی تجارت 9.21 ارب ڈالر تھی۔ قطر میں 6 ہزار سے زیادہ بڑی اور چھوٹی انڈین کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ اور 8 بھارتیوں کو سزائے موت کے بعد یہ تعلقات ختم نہیں ہو جاتے لیکن بھارتی سفارت کاری کا یہ کمال تھا وہ اپنے اقراری مجرموں کو بھی سزائے موت سے بچانے میں کامیاب ہو گیا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ڈاکٹر عافیہ نے ایسا کون سا جرم کر دیا تھا جس کی ان کو 86 سال کی سزا سے پاکستان بچانے میں مکمل طور سے ناکام ہے اور سرکاری سطح پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ کو خود گرفتار کر امریکا کے حوالے کیا تھا جس اعتراف خود جنرل مشرف اپنی انگریزی کی کتاب میں کیا تھا۔ اس نے بھاری رقم حاصل کی تھی۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی کتاب کا اردو ورژن ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نام سے مارکیٹ میں آ چکا ہے لیکن اس میں انہوں نے انگریزی میں شائع ہونے والی کتاب کا وہ حصہ خارج کر دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ القاعدہ کے لوگوں جن میں ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے کے عوض پاکستان کو لاکھوں ڈالر ملے ہیں۔ اردو ترجمہ میں یہ تبدیلی اس کے تیئیسویں باب کے پہلے پیراگراف میں کی گئی ہے جس کا عنوان ’تعاقب‘ ہے۔ انگریزی کتاب کے اس حصہ میں امریکا پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد القاعدہ سے منسلک افراد کو پکڑنے میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ نیویارک میں اپنی انگریزی کتاب کے منظر عام پر آنے کے محض دو دن بعد ہی جنرل پرویز مشرف نے تسلیم کیا تھا کہ ان سے ’غلطی‘ ہو گئی ہے اور اس کی روشنی میں کتاب میں ترمیم کی جائے گی۔ ستائیس ستمبر کو ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’یہ میری غلطی ہے۔ یہ (رقم) حکومت پاکستان کے پاس نہیں آتی‘۔ مجھے یہ نہیں لکھنا چاہیے تھا اور میں یقینا آئندہ شائع ہونے والی کاپیوں میں ترمیم کروں گا۔ لیکن سوال یہی ہے کہ اس غلطی کے بعد بھی وہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے کے عوض کتنی رقم حاصل کی گئی تھی۔ اگر پاکستان نے خود ہی ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا ہے تو وہ کس منہ سے ان کی رہائی کے لیے امریکا سے بات چیت یا سفارت کاری کرے گا؟ اور شاید اسی لیے جب پاکستان سے سینیٹر مشتاق اور ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ ان سے ملاقات کے لیے امریکا گئے تو پاکستان کے سفیر اس ملاقات میں ان کے ساتھ نہیں جاسکے۔ 23 ستمبر، 2010ء میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2013ء میں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بے ہوش رہیں۔ بالآخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔ اب کوئی خود ہی بتائے کہ پاکستان کی حکومت 2010ء سے خاموش ہے تو اب کیا ہوسکتا ہے۔