واشنگٹن:امریکا میں لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ نے تاریخ کی سب سے تباہ کن صورت اختیار کر لی ہے، جس میں اب تک 10 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ فائرفائٹرز آگ پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، مگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث چلنے والی تیز ہوائیں شعلوں کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔
امریکا کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ کہیں یہ آگ جان بوجھ کر تو نہیں لگائی گئی۔ اس سلسلے میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، جس سے تفتیش جاری ہے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ پیسیفک پیلیسیڈس اور ایٹن کے علاقوں میں شدید نقصان ہوا ہے، جہاں مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔
لاس اینجلس کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی منقطع ہونے سے زندگی معطل ہوچکی ہے۔ اسکولز اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کو بند کر دیا گیا ہے، جبکہ کئی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ شہر کے رہائشی گھروں سے بے دخل ہوچکے ہیں اور متعدد عبادت گاہیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
فائر فائٹرز کو پانی کی قلت کے الزامات کا سامنا ہے، جس پر نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنقید کی ہے، تاہم حکام نے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی فراہمی میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے۔
پیسیفک پیلیسیڈس میں تقریباً 5300 عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں،جب کہ ایٹن کے علاقے میں مزید5000 عمارتوں کا نقصان ہوا ہے۔ آگ کی شدت نے گھروں، کاروباروں اور عوامی انفراسٹرکچر کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے باعث شہر میں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں۔