بے وقوف! یہ معیشت ہے

110


تمام تجزیوں کا ایک تجزیہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام کی اکثریت عمران خان کی رہائی چاہتی ہے۔ لوگ عمران خان کے عاشق ہیں اور عشق کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ عشق حق پر ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت غالب کے عشق کی طرح تھی۔ غالب جس پر مرتے اسے مار رکھتے تھے۔ عمران خان نے بھی پونے چار برس میں ملک کو مار کر رکھ دیا تھا، دنیا میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جارہی تھیں۔ لوگ پھر بھی ان کی واپسی چاہتے ہیں۔ اس میں عمران خان کا دوش کم ہی ہے، روایتی عشاق کی طرح ہمارے عاشق بھی یہی چاہتے ہیں کہ محبوب انہیں قتل کردے، ایک بار پھر۔

ایک انٹرویو میں کسی سے پوچھا گیا ’’اپنے لباس کے بارے میں بتائیے‘‘ جواب آیا ’’پہن لیتا ہوں‘‘ عمران خان اور حکومت کے درمیان مذاکرات آغاز ہوئے تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ عمران خان مذاکرات بھی کرلیتے ہیں۔ گھوڑے کا اندازہ اس کی لات، عورت کا اندازہ اس کی بات اور سیاست دان کا اندازہ مذاکرات سے لگایا جاتا ہے۔ مذاکرات، مفا ہمت اور مصلحت جیسے سیاسی تقاضوں سے عمران خان دور دور ہی رہتے ہیں۔ عمران خان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ وہ سیاست دان بننا نہیں چاہتے۔ لگتا ہے اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی تھی۔ اپنے مخالفین سے ہاتھ ملانا تو درکنار وہ آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ مخالفین کی بے عزتی اور توہین بھی وہ اسی لیے رج کے کرتے ہیں کہ بعد میں کون سا ان سے معافی مانگنا اور مذاکرات کرنے ہیں۔

عمران خان نے حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظا ہر کی تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ تحریک انصاف کی قیادت انہیں کیسے منہ لگائے گی جنہیں ان کے بانی روز اوّل سے چور اور ڈاکو کہا کرتے تھے۔ ہم بھول گئے تھے کہ اپنی بات سے پھر جانے یا یوٹرن کی وجہ سے عمران خان ہمیشہ ’’غیر متوقع unpredictable‘‘ رہے ہیں۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ عمران خان اپنا کون سا ہاتھ کون سی جیب میں ڈالیں اور جیب سے کیا نکلے۔ یہ الگ بات کہ عمران خان کم ہی اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالتے ہیں۔ ماضی میں ان کا ہاتھ اکثر جہانگیر ترین کی جیب سے نکلتا تھا۔

اس وقت تحریک انصاف کا کوئی نظم ہے نہ ڈھانچا، فیصلہ سازی کا کوئی فورم ہے اور نہ جادہ منزل سوائے عمران خان کی رہائی کے۔ مذاکرات کے سلسلے میں بھی پی ٹی آئی کی سات رکنی ٹیم عمران خان سے لا محدود ملاقاتیں چاہتی ہے تاکہ کنفرم کرسکے کہ ابھی تک ٹیم کو پچھلی ہدایات پر ہی عمل کرنا ہے یا بانی نے یوٹرن لے لیا ہے۔ ان ظاہری مذاکرات سے زیادہ اسلام آباد میں پس پردہ مذاکرات کا شور ہے جو سنا ہے بشریٰ بی بی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری ہیں۔ ان مذاکرات میں وہی کچھ ہورہا ہے جو ایسے مذاکرات میں ہوتا ہے۔ آپ پوچھیں گے ایسے مذاکرات میں کیا ہوتا ہے۔ جواب ہے ایسے مذاکرات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو ایسے مذاکرات میں ہونا چاہیے۔ دونوں سائیڈ پر اسٹیبلشمنٹ ہی مذاکراتی پارٹی ہوتی ہے۔

عمران خان تحریک انصاف کے قومی ہیرو ہیں تو بشریٰ بی بی قومی ہیروئن۔ مذاکرات میں عمران خان کا دو مطالبات تک سمٹ جانا بشریٰ بی بی کی ایسی ہی ملاقاتوں اور عمران خان پر اثر اندازی کے صفاتی موکلوں کا نتیجہ ہے۔ اب حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ماضی دیکھنا ہو تو عمران خان کو اور حال اور مستقبل دیکھنا ہوتو بشریٰ بی بی کی طرف دیکھیں اور سمجھیں۔ پچھلے پندرہ دنوں میں اسٹیبلشمنٹ سے ان کے دو تین مرتبہ رابطے ہوچکے ہیں اس ایک نکتے پر جو عمران خان کی رہائی کے گرد گھومتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ پہلے عمران خان سدھریں تب رہائی ہوگی۔ بشریٰ بی بی چاہتی ہیں پہلے رہائی ہو پھر سدھریں گے، انہیں سدھارنا آتا ہے۔ وہ عمران خان کے دل میں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں رہتی ہیں۔

نہ جانے عمران خان کو اور تحریک انصاف کے دیگر زعماء کو ابھی تک یہ زعم کیوں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کچھ منواسکتے ہیں۔ خان اور قائدین کو تو چھوڑیے یوتھیے تک اسی خیال میں فاختائیں اڑا رہے ہیں۔ رحم کی درخواستوں کے نتیجے میں، نو مئی کے واقعات میں ملوث تحریک انصاف کے جو قیدی رہا کیے گئے، انہوں نے جیل کے دروازے سے با ہر نکلتے ہی جو بھنگڑے ڈالے، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’’پاکیزہ اور مصفا‘‘ نعرے لگائے، پھبتیاں کسیں، رہائی کو میرٹ، عمران خان کے زور بازو اور پلڑا بھاری ہونے کا نتیجہ قرار دیا۔ پھر وزیراعلیٰ گنڈا پور نے جس طرح ریاست کے مجرموں کا ہیرو کی طرح استقبال کیا وہ سب اسٹیبلشمنٹ کی برف کی ڈلیوں کو اُبالنے اور آئندہ ایسی درخواستوں اور مجرموں کی رہائی پر پانی پھیرنے کے برابر تھا اور وہ بھی چونے والا۔ تب وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کو متحرک کیا گیا جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اسٹیبلشمنٹ کے ردعمل اور غصے کو الفاظ دیتے ہوئے کہا کہ اب باقی قیدیوں کو نہیں چھوڑنا۔ جب تک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ دوبارہ چھپتی ہے تحریک انصاف حماقتوں کے نئے ریکارڈ قائم کرچکی ہوتی ہے۔

برنارڈ شا نے ایک بدصورت عورت کو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے دیکھا تو کہا ’’میڈم آپ دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ آپ کو اپنے آپ سے عشق ہے اور کرہ ارض پر آپ کا کوئی رقیب نہیں ہے‘‘ عمران خان اپنے آپ پر فریفتہ ہیں اور تحریک انصاف کے عمائدین ان پر، اور اس سرشاری میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جی بھر کے حماقتوں کا ارتکاب کررہے ہیں اور اسے اپنی کامیابی باور کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اب تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو بھی قدم اٹھائے ہیں نتیجہ بربادی اور تباہی، پی ٹی آئی کی کمزوری اور اسٹیبلشمنٹ کی طاقت میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ نو مئی اور 26 نومبر تحریک انصاف کی ایسی کارروائیاں تھیں کہ سلطان راہی مرحوم یاد آگئے جو کیمرے کے بجائے گنڈاسے سے سین شوٹ کرواتے تھے لیکن نتیجہ کیا نکلا سوائے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خلاف کارروائیوں کے مواقع ارزاں کرنے کے۔ اب اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف اتنی متشدد ہوگئی ہے کہ تحریک انصاف کی کھانسی کا علاج بھی ٹی بی کی ادویات سے کرتی ہے۔

سیاست کے پانیوں میں پی ٹی آئی پھول کی پتی پھینک کر حشر کا تلاطم پیدا کرنا چاہتی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ چٹکی سے مسل کر فارغ کردیتی ہے۔ عمران خان کا اصل مشن یہ ہے کہ جلداز جلد شہباز حکومت کی چھٹی ہو، نئے الیکشن ہوں، میں پھر وزیراعظم بنوں اور اپنی پسند کا نیا آرمی چیف نامزد کروں۔ اس منزل کے لیے ان کا پہلا قدم اپنی رہائی ہے جس کے لیے وہ کارکنان کی رہائی کی بات سے آغاز کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان کو گراتے گراتے اس مقام پر لے آئی ہے کہ وہ جنہیں چور اور ڈاکو کہتے تھے آج ان سے مذاکرات کررہے ہیں لیکن ان مذاکرات سے کیا وہ اپنے مذکورہ مقاصد حاصل کر پائیں گے؟ ناممکن۔ اسٹیبلشمنٹ معیشت کی بحالی تک کوئی رسک لینے کے لیے تیار نہیں۔ تب تک وہ عمران خان کو بہلا بہلا کر مصروف رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ اگلے تین چار برس تک حالات کو جوں کا توں رکھنا ہے جس میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں ہوگا سوائے شور مچانے کے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے شور کی اتنی عادی، ان کے مزاج سے اتنی آشنا اور ان کو کنٹرول کرنے میں اتنی ماہر ہوگئی ہے کہ جب اور جیسا چاہتی ہے ان کو ردعمل دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ بل کلنٹن نے 1992 کے الیکشن میں نعرہ لگایا تھا ’’It’s the economy stupid‘‘ کاش ہمارے بے وقوف بھی سمجھ جائیں کہ یہ معیشت ہے جو برباد ہوجائے تو دانے مک جاتے ہیں جیسا کہ عمران خان کے پچھلے دور میں مک گئے تھے۔