من موہن سنگھ: بے توقیری یا روایات کی خلاف ورزی؟

113

ڈاکٹر من موہن سنگھ، بھارت کے سابق وزیر اعظم، ایک ایسی شخصیت تھے جنہیں ان کی دیانت داری، علمی قابلیت، اور ملک کے لیے بے شمار خدمات کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بھارت کے پہلے سکھ وزیر اعظم تھے، جنہوں نے 2004 سے 2014 تک دس سالہ اقتدار کے دوران ملک کو اقتصادی ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے جسد خاکی کو نگم بودھ گھاٹ لے جایا گیا، جہاں ان کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ تاہم، ان کی آخری رسوم راج گھاٹ پر منعقد نہ کرنے کے فیصلے نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے اس فیصلے کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بے توقیری قرار دیا ہے، جس پر مختلف سیاسی، سماجی، اور عوامی حلقوں میں بحث جاری ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ ایک ماہر اقتصادیات تھے، جنہوں نے 1991 کے اقتصادی اصلاحات کے معمار کے طور پر بھارت کی معیشت کو نئی راہ پر گامزن کیا۔ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے عالمی سطح پر بھارت کے وقار میں اضافہ کیا اور داخلی طور پر مختلف ترقیاتی منصوبے متعارف کروائے۔ ان کی سادگی، شرافت، اور سیاسی استحکام کے لیے کام کرنے کا جذبہ انہیں بھارت کی سیاست میں ایک منفرد مقام دیتا ہے۔

راج گھاٹ قومی علامت اور اہمیت کا وہ تاریخی مقام ہے جہاں مہاتما گاندھی کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ یہ جگہ بھارت کے عظیم رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے مخصوص ہے۔ جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اور دیگر اہم شخصیات کی آخری رسوم بھی یہیں منعقد کی گئیں۔ یہ مقام نہ صرف ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے بلکہ بھارت کی قومی یکجہتی اور عظیم رہنماؤں کی خدمات کی یادگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔

نگم بودھ گھاٹ دہلی کا ایک روایتی شمشان گھاٹ ہے، جہاں عام طور پر آخری رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ مقام دہلی کے عوام کے لیے عام حیثیت رکھتا ہے، لیکن اسے قومی سطح پر راج گھاٹ جیسی علامتی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہاں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود عوام کو شرکت کی عام اجازت ہوتی ہے، جو اسے راج گھاٹ سے مختلف بناتی ہے۔

راج گھاٹ ایک ایسا مقام ہے جو بھارت کے عظیم رہنماؤں کو قومی سطح پر عزت اور مقام فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس، نگم بودھ گھاٹ ایک عام شمشان گھاٹ ہے، جو عام شہریوں کی آخری رسوم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

راج گھاٹ کی علامتی حیثیت اسے قومی وقار کی جگہ بناتی ہے، جب کہ نگم بودھ گھاٹ ایسی کوئی علامتی اہمیت نہیں رکھتا۔ راج گھاٹ کو بھارت کے آزادی کے رہنماؤں اور قومی ہیروز کی قربانیوں سے جوڑا جاتا ہے۔ نگم بودھ گھاٹ محض ایک شمشان گھاٹ ہے جس کا کوئی خاص تاریخی یا قومی پس منظر نہیں۔ راج گھاٹ پر آخری رسوم میں سخت پروٹوکول کے تحت عوام کی محدود رسائی ہوتی ہے، جب کہ نگم بودھ گھاٹ میں عوام کی شمولیت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ راج گھاٹ پر کسی شخصیت کی آخری رسوم کا انعقاد اس کی قومی سطح پر عزت کا اظہار ہوتا ہے، جب کہ نگم بودھ گھاٹ کو زیادہ تر نجی اور ذاتی تقریبات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسوم نگم بودھ گھاٹ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا سکھوں سے تعصب ہے یا یہ محض ایک انتظامی فیصلہ تھا، یا اس کے پیچھے سیاسی تعصب کارفرما تھا؟ راہول گاندھی نے اس فیصلے کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بے توقیری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سابق وزیر اعظم کی خدمات کو نظر انداز کرنا اور انہیں قومی وقار کے مطابق عزت نہ دینا بھارت کی روایات کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت نے اس فیصلے کو انتظامی چیلنجز اور موجودہ حالات کے تناظر میں لیا گیا فیصلہ قرار دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ راج گھاٹ پر انتظامات ممکن نہیں تھے، اس لیے نگم بودھ گھاٹ کو منتخب کیا گیا۔ عوامی حلقوں میں اس فیصلے پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسوم کا معاملہ صرف ایک شخصیت کی آخری رسوم کا نہیں، بلکہ اس کا تعلق بھارت کی سیاست، اخلاقیات، اور قومی وقار سے بھی ہے۔ اگر قومی رہنماؤں کو ان کے مقام کے مطابق عزت نہ دی جائے، تو یہ بھارت کی جمہوریت کے لیے ایک خطرناک رجحان ہو سکتا ہے۔ اس واقعے نے بھارت کی سیاست میں موجود تعصبات کو بے نقاب کیا ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے رہنماؤں کو قومی مفاد کے بجائے جماعتی تعصب کی نظر سے دیکھتی ہیں؟ حکومت کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ تمام قومی رہنماؤں کو مساوی عزت دے، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں۔ راج گھاٹ جیسی روایات کا تحفظ قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے۔ اگر ان روایات کو توڑا جائے، تو اس سے بھارت کے سماجی اور سیاسی تانے بانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسوم کا معاملہ ایک علامتی تنازع ہے، جو بھارت کی سیاست اور سماج میں موجود گہرے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ بھارت اپنی روایات اور اقدار کو دوبارہ زندہ کرے اور اپنے عظیم رہنماؤں کو ان کے شایان شان مقام دے۔ راج گھاٹ اور نگم بودھ گھاٹ کے فرق کو سمجھتے ہوئے، قومی رہنماؤں کو ان کی خدمات کے مطابق عزت دینا بھارت کی جمہوری اقدار کے لیے ناگزیر ہے۔