کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے افغانستان کے لیے درآمدی سامان لے جانے والے کنٹینرز کی سیٹلائٹ ٹریکنگ معطل کرکے انسانی نگرانی کا نظام متعارف کرا دیا ہے۔ اس اقدام نے اسمگلنگ کے امکانات میں اضافے کے خدشات کو جنم دیا ہے، کیونکہ نئے کنٹریکٹرز کے پاس کنٹینر ٹریکنگ کے لیے ضروری آلات موجود نہیں ہیں۔ایف بی آر نے 2013 سے کنٹینرز کی سیٹلائٹ اور جی ایس ایم کے ذریعے نگرانی کرنے والی کمپنی کا لائسنس ختم کرتے ہوئے یہ ذمہ داری چار نئی کمپنیوں کے سپرد کر دی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، ان کمپنیوں کا انتخاب چار سال پرانے تکنیکی معیارات کی بنیاد پر بغیر کسی مسابقتی عمل کے کیا گیا۔ ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ، محسن رفیق نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ یہ کمپنیاں کئی سال پہلے (2021) میں تکنیکی طور پر اہل قرار دی گئی تھیں۔ تاہم، ان کے پاس کنٹینر ٹریکنگ کا تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی کنٹینر سرویلینس ڈیوائسز (CSDs) موجود ہیں۔ جبکہ ،CSD کے بغیر کنٹینرز کی ٹریکنگ اور اس میں سامان کی بحفاظت منتقلی ممکن ہی نہیں۔ ایف بی آر نے انسانی نگرانی کا ماڈل اپنانے کے ساتھ ہی نئے عملیاتی طریقہ کار (SOPs) جاری کیے ہیں، جن کے تحت کراچی کسٹمز کو اضافی انسانی وسائل فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بغیر متبادل نظام کے کنٹینرز ٹریکنگ کا خاتمہ اسمگلنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ گزشتہ ماہ جاری کردہ ایک نئے ضابطے کے تحت، ایف بی آر نے کنٹریکٹرز کے لیے مالی اور تکنیکی شرائط میں نرمی کی۔ اس کے نتیجے میں نئے کنٹریکٹرز کے پاس صرف وہ آلات ہیں جو گاڑیوں کی ٹریکنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جبکہ کنٹینرز کی نگرانی کے لیے مخصوص CSDs موجود نہیں ہیں۔ لائسنسنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف ہوا کہ نئے کنٹریکٹرز کے پاس صرف پرائم موور ڈیوائسز (PMDs) ہیں جو گاڑیوں کی حرکت کو مانیٹر کرتی ہیں، لیکن کنٹینرز کی نگرانی کے لیے درکار CSDs مہنگے اور نایاب ہیں، جو کہ صرف اس سے قبل اس کام / ٹریکنگ کرنے والی کمپنی ٹی پی ایل ٹریکر ہی کے پاس موجود ہی۔ ایف بی آر نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کنٹینرز پر CSDs کی دوبارہ دستیابی کے بعد ہی استعمال کا عندیہ دیا۔ جس میں تقریبا 3 مہینے درکار ہوں گے۔ ٹرانسپورٹرز نے ایف بی آر کے اس فیصلے پر احتجاج کیا ہے، کیونکہ اب انہیں گاڑیوں پر PMDs لگانے کے لیے 20,000 روپے اور فی ٹرپ 5,278 روپے ادا کرنا ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق، یہ اضافی اخراجات نہ صرف کاروباری برادری پر بوجھ ڈالیں گے بلکہ اسمگلنگ کے خطرے کو بھی بڑھاتے ہیں۔ ایف بی آر نے پرانی کمپنی ٹی پی ایل ٹریکر کا لائسنس ختم کرنے کی وجہ “ناکافی کارکردگی” بتائی ہے، تاہم ٹی پی ایل نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا آئی ٹی نظام صرف جون 2024 میں چند دنوں کے لیے متاثر ہوا تھا اور اس کے بعد مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے۔ کمپنی نے سیٹلائٹ اور جی ایس ایم دونوں صلاحیتوں کے حامل ہائبرڈ آلات کے استعمال کی تصدیق کی۔ کسٹمز کا موجودہ فیصلہ نہ صرف اسمگلنگ کے خطرات کو بڑھاتا ہے بلکہ پاکستان کے ٹرانزٹ ٹریڈ کے عمل پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔موجودہ فیصلہ پر جہاں ٹرانسپورٹرز پریشان ہیں وہیں کسٹمز کے افسران نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے افسران کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے