سپریم کورٹ:آئینی بینچ نے 9 مئی کے مقدمات میں فوجی ٹرائل پر مزید سوالات اٹھا دیے

107
Supreme Court: Cause list for hearing

اسلام آباد:سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 9 مئی کے واقعات میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر مزید اہم سوالات اٹھا دیے۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جب ایف آئی آرز میں تمام دفعات انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی سی) کے تحت درج تھیں، تو ان مقدمات کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیسے ممکن ہوا؟

جمعہ کے روز ہونے والی سماعت میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری ٹرائلز کے لیے مخصوص قوانین اور طریقہ کار موجود ہیں، جو عام عدالتوں سے مختلف ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا فوجی افسران کو اتنا تجربہ ہوتا ہے کہ وہ سزائے موت جیسے سخت فیصلے کر سکیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے مزید سوال کیا کہ جو افسر ٹرائل کی سماعت نہیں کرتا، وہ فیصلہ کیسے سناتا ہے؟ انہوں نے امریکا میں فوجی ٹرائلز کی مثال طلب کی اور استفسار کیا کہ وہاں ٹرائل کرنے والے ججوں کی قانونی قابلیت کیا ہوتی ہے؟

خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ آرمی ایکٹ ایک خاص قانون ہے اور اس کے تحت شواہد اور ٹرائل کے ضوابط مختلف ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملٹری کورٹس میں صرف ان ملزمان کو بھیجا گیا جن کی جائے وقوع پر موجودگی ثابت ہوئی جب کہ دیگر ہزاروں افراد کو عام عدالتوں میں پیش کیا گیا۔

بعد ازاں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث پیر کے روز اپنے دلائل مکمل کریں گے۔