پی آئی اے کی دوبارہ بولی 31اکتوبرکو ہوگی، سیکرٹری نجکاری کمیشن

60

اسلام آباد (نمائندہ جسارت) سیکرٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے بتایا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور 31اکتوبرکو دوبارہ بولی ہوگی۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے چیئرمین کمیٹی فاروق ستار کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس کے دوران انہوںنے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے نئے جہازوں کی خریداری پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) چھوٹ کا مطالبہ تسلیم کر لیا ہے اور پی آئی اے کے واجبات ہولڈنگ کمپنی (پی آئی اے سی ایل) کو منتقل کیے گئے ہیں۔سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ 11 میں سے دو نکات پر بولی دہندگان سے اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ ایک بولی دہندہ نے پی آئی اے کے انتظامی امور چلانے کی حامی بھری تھی، جنہوں نے کہا کہ ملازمین کو نوکری سے نکال دیں،یہ فیصلہ کرنا حکومت کے لیے مشکل تھا۔ تین بولی دہندگان نے جہازوں کی خریداری پر 18 فیصد جی ایس ٹی ختم کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ پی آئی اے کے واجبات کے حوالے سے بھی بولی دہندگان نے اعتراض اٹھایا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ’پی آئی اے کی بکس پر واجبات زیادہ تھے اور اثاثوں کی مالیت کم تھی۔ بولی دہندگان نے 45 ارب روپے کے اضافی واجبات سے پی آئی اے کی نجکاری میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور حکومت نے آئی ایم ایف کی وجہ سے بولی دہندگان کا مطالبہ نہیں مانا۔سیکرٹری نجکاری کمیشن کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ بولی دہندگان کے مطالبات پر بات ہوئی اور انہوں نے حکومت کی درخواست پر بولی دہندگان کے دونوں مطالبات مان لیے۔ آئی ایم ایف کی اجازت کے بعد حکومت نے دوبارہ اظہارِ دلچسپی کا نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔کمیٹی کے رکن خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ نجکاری میں صرف ایک ہی بولی دہندہ کیوں رہ جاتا ہے؟ کیا حکومت نجکاری میں سنجیدہ ہے یا یہ سب صرف دکھاوے کے طور پر ہو رہا ہے؟ پی آئی اے میں جگ ہنسائی کے بعد اب ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (ایچ بی ایف سی) کے لیے بھی ایک بولی دہندہ ہے۔سیکرٹری نجکاری کمیشن نے جواب دیا کہ ’ایچ بی ایف سی کی نجکاری میں شرکت کے لیے شرائط سخت تھیں۔ آخر تک دو بولی دہندگان رہ گئے تھے، جن میں سے ایک سٹیٹ بینک کی شرائط پوری نہ کر سکا۔‘دوسری جانب کمیٹی کی رکن سحر کامران نے کہا کہ ’پی آئی اے کی نجکاری پر کتنے اخراجات آئے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘ خواجہ شیراز نے کہا کہ ’نجکاری کے طریقہ? کار میں کوئی خامی ہے، اس لیے نجکاری نہیں ہو پا رہی۔‘چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ’پی آئی اے کے مالیاتی مشیر کی کارکردگی کیسی رہی، یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری میں کتنا خرچ ہوا؟‘ جس پر سیکرٹری نے جواب دیا کہ وہ یہ ابھی نہیں بتا سکتے، حتیٰ کہ وزیرِاعظم نے بھی یہ تفصیلات سننے سے منع کر دیا تھا۔ سیکرٹری نے مزید کہا کہ وہ بعد میں تمام معلومات فراہم کر دیں گے۔