عمر بن عبدالعزیزؒ نے نہ صرف علاقے اور جاگیریں چھین کر بنی اْمیہ کو تہی دست کردیا، بلکہ ان کے سارے امتیازت مٹا کر اْن کے نخوت و غرور کو خاک میں ملا دیا۔ آپ کے اس اقدام سے خاندان میں ان کے خلاف سخت برہمی پھیل گئی اور اْنھوں نے ہر طریقے سے پوری کوشش کی کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے جو اصلاحی تحریک چلائی ہے اس کو ختم کیا جائے۔ اہل خاندان نے ایک دفعہ آپ سے کہا تھا کہ آپ نے جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے ہم اس پر راضی نہیں ہیں اور ہم کسی بھی صورت میں اپنی جاگیریں واپس نہیں کریں گے، اور نہ مال آپ کو واپس دیں گے۔ ان کے جواب میں عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ میں آپ سے تمام غصب شدہ مال واپس لے کر ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرکے رہوں گا‘‘۔
خاندان بنی امیہ نے کوشش جاری رکھی کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے جو تحریک چلائی ہے اس سے دست بردار ہوجائیں۔ چنانچہ عمر بن عبدالولید بن عبدالملک نے آپ کو ایک خط لکھا:
’’تم نے گذشتہ خلفا پر عیب لگایا ہے اور ان کی اولاد کی دشمنی سے ان کے مخالف روش اختیار کی ہے۔ تم نے قریش کی دولت اور ان کی میراث کو ظلم و عدوان سے بیت المال میں داخل کرکے قطع رحم کیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز! خدا سے ڈرو اور اس کا خیال کرو کہ تم نے ظلم کیا۔ تم نے منبر پر بیٹھنے کے ساتھ ہی اپنے خاندان کو ظلم و جور کے لیے مخصوص کرلیا۔ اس خدا کی قسم! جس نے حضرت محمدؐ کو بہت سی خصوصیات کے ساتھ مختص کیا! تم اپنی اس حکومت میں جس کو تم مصیبت کہتے ہو، خدا سے بہت دْور ہوگئے۔ اپنی خواہشات کو روکو اور یقین کرو کہ تم اس حالت میں چھوڑے نہیں جا سکتے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ اگر چہ سراپا حلم تھے، لیکن آپ نے بھی اس کا سخت جواب لکھا:
’’مجھے تمھارا خط ملا اور جیسا تم نے لکھا ہے میں ویسا ہی جواب دوں گا۔ تم ایک معاند اور ظالم ہو۔ تمھارا خیال ہے کہ میں ظالموں میں سے ہوں، میں نے تم کو اور تمھارے خاندان کو خدا کے مال سے جس میں اہل قربیٰ، مساکین اور بیواؤں کا حق ہے محروم کر دیا؟ لیکن مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ خدا کے عہد کو چھوڑ دینے والا وہ شخص ہے جس نے تم کو بچپن اور کمینے پن کی حالت میں مسلمانوں کی ایک چھاؤنی کا افسر مقرر کیا۔ اور تم اپنی راے کے موافق ان کے معاملات کا فیصلہ کرتے رہے۔ پس پھٹکار ہو تجھ پر اور پھٹکار ہو تیرے باپ پر، جو اپنے مدعیوں سے کیوں کر نجات پائے گا۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے حجاج کو عرب کے خمس پر مقرر کیا۔ جو حرام خون بہاتا تھا اور حرام مال لیتا تھا۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے کیا ہوا عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے قرۃ بن شریک جیسے اْجڈ بدو کو مصر کا عامل مقرر کیا۔ جس نے راگ باجا، لہوو لعب اور شراب خوری کی اجازت دی۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے عر ب کے خمس میں عالیہ بربریہ کا حصہ مقر رکیا۔
اگر مجھ کو فرصت ہوتی تو میں تجھے اور تیرے خاندان کو روشن راستے پر لاتا۔ ہم نے مدتوں سے حق کو چھوڑدیا۔ اگر تم فروخت کیے جاؤ اور تمھاری قیمت یتیموں، مسکینوں، اور بیواؤں پر تقسیم کی جائے تو کافی نہ ہوگی کیوںکہ تم پر سب کا حق ہے۔ ہم پر سلام ہو، اور خدا کا سلام ظالموں کو نہیں پہنچتا‘‘۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز، ابن جوزی، ص 112)
عمر بن عبدالعزیزؒ نے جو تحریک چلائی تھی اس پر وہ سختی سے عمل پیرا تھے۔ مروان نے ایک بار ہشام بن عبدالملک کو اپنا وکیل بنا کر عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس بھیجا، اور انھیں کہا کہ آپ عمر بن عبدالعزیز سے کہیں کہ اْنھوں نے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کو بند کریں۔ چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے آپ سے آکر کہا: ’’اے امیر المومنین! میں آپ کی خدمت میں تمام خاندان کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں۔ اور ان کا مطالبہ ہے کہ جو چاہے کیجیے لیکن گذشتہ خلفا جو کرگئے ہیں، اس کو اسی حالت میں رہنے دیجیے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس کے جواب میں ہشام بن عبدالملک سے پوچھا: ’’تمھارے پاس دو دستاویز ہوں۔ ایک سیدنا معاویہؒ کی اور دوسری عبدالملک کی، تو تم دونوں میں کس پر عمل کرو گے؟‘‘ہشام نے کہا: ’’جو مقدم ہوگی‘‘۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: ’’تو میں نے کتاب اللہ کو سب سے مقدم دستاویز پایا ہے۔ اس لیے ہر اس چیز میں جو میرے اختیار میں ہے، خواہ وہ میرے زمانے کی ہو یا گذشتہ زمانے سے متعلق ہو، اسی کے مطابق عمل کروں گا‘‘۔ (ایضاً، ص 119)
جب بنی مروان کی کوئی تدبیر کار گرنہ ہوئی تو انھوں نے آخری حربہ استعمال کیا، اور آپ کی پھوپھی کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ وہ آئیں اور عمر بن عبدالعزیزؒ سے کہا کہ ’’عمر! تمھارے اعزہ واقارب شکایت کرتے اور کہتے ہیں کہ تم نے ان سے غیر کی دی ہوئی روٹی چھین لی‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: ’’میں نے ان کا کوئی حق نہیں چھینا‘‘۔
پھوپھی نے جواب دیا: ’’سب لوگ اس کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ تمھارے خلاف بغاوت نہ کر دیں‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: ’’اگر میں قیامت کے سوا کسی دن سے ڈروں تو اللہ مجھے اس کی برائیوں سے نہ بچائے‘‘۔
اس کے بعد ایک اشرفی، گوشت کا ایک ٹکڑا اور ایک انگیٹھی منگوائی اور اشرفی کو آگ میں ڈال دیا۔ جب وہ خوب سرخ ہوگئی تو اس کو اْٹھا کر گوشت کے ٹکڑے پر رکھ دیا، جس سے وہ بھن گیا۔ اب پھوپھی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اپنے بھتیجے کے لیے کیا اس قسم کے عذاب سے پناہ نہیں مانگتیں؟‘‘ پھوپھی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور خاموشی سے اْٹھ کر چلی گئیں۔
بنی مروان، عمر بن عبدالعزیزؒ کے اس عملی اقدام سے سخت ناراض تھے اور انھوں نے آپ کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن ان سب مخالفتوں کا اثر عمر بن عبدالعزیز نے قبول نہ کیا اور اْنھوں نے جو تحریک اٹھائی، اس کو مکمل کر کے چھوڑا۔ تاہم، آپ نے مختلف اخلاقی طریقوں سے اپنے خاندان کی ناراضی کو کم کیا۔