اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اولاد ہے۔ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ انھیں پاکر وہ خوشی محسوس کرتا ہے، ان کے دم سے اس کی زندگی کی رنگینیاں قائم رہتی ہیں۔ ان کی کفالت کے لیے معاشی جدوجہد کرنا اس پر بار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ بعض انسانوں کو اولاد عطا کرتا ہے اور بعض کو کسی مصلحت یا آزمایش کے مقصد سے اس سے محروم رکھتا ہے۔ پھر جن کو اولاد عطا کرتا ہے ان میں سے بعض کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے، بعض کو صرف لڑکے اور بعض کو صرف لڑکیاں۔ کوئی مرد صاحبِ اولاد ہوگا یا نہیں، کوئی عورت بچہ جنے گی یا بانجھ ہوگی، کسی کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں گی یا صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں، کسی کے صرف ایک اولاد ہوگی، وہ بھی لڑکا یا لڑکی، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی تقدیر پر منحصر ہے۔ اس میں کسی مرد یا عورت کی خواہش یا کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ سورئہ شوریٰ میں اس بات کو قطعی اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (الشورٰی: 49-50)
بعض معاشروں میں لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر ان کی پیدایش پر نہ صرف یہ کہ خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں عرب کے بعض قبیلوں کا یہی حال تھا۔ ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ بڑی خفت محسوس کرتے اور ان میں سے بعض اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ قرآن نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بْری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟‘‘ (النحل: 58-59)
لڑکیوں کے معاملے میں عہد جاہلیت کے بعض قبیلوں کی جو سوچ تھی، موجودہ دَور کے بہت سے معاشروں کی سوچ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے یہاں لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پر اس کی پیدایش کی خبر سن کر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ نکاح کے مسائل اور اس کے ہوش ربا مصارف، جہیز کی فراہمی کے لیے مطلوبہ خطیر رقم وغیرہ کے بارے میں سوچ کر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہی نہ ہو۔ لڑکی پیدا ہونے پر قدیم زمانے میں اسے زندہ درگور کرکے اس سے پیچھا چھڑا لیا جاتا تھا۔ جدید جاہلیت نے اس کام کے لیے نئی نئی تکنیکیں دریافت کرلی ہیں، جن کی مدد سے دورانِ حمل میں ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں ولادت کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی، پہلے ہی اسقاط (abortion) کروادیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر سمجھنے کی سوچ، افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی سرایت کررہی ہے۔ کسی خاندان میں کئی لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو عموماً اس کا ذمے دار عورت کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ عورت صرف لڑکیاں جننے والی ہے۔ اسی بنا پر اس طرح کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر لڑکا چاہیے تو مرد کو دوسری شادی کرلینی چاہیے، تبھی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ لڑکا پیدا ہونے میں نہ مرد کا اختیار ہوتا ہے نہ عورت کا اور لڑکی پیدا ہونے میں عورت کا، کوئی قصور نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک خام تصور ہے کہ موروثی طور پر کوئی عورت صرف لڑکیاں پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور کسی عورت سے لڑکے زیادہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اوپر قرآن کریم کی صراحت گزری کہ کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا محض اللہ تعالیٰ کی قدرت، توفیق اور تقدیر پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جدید میڈیکل سائنس سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بہت سوں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث ہوں گی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی پیدا ہونے میں اصل کردار عورت کا نہیں، بلکہ مرد کا ہوتا ہے۔
جسم انسانی کے تولیدی خلیّات (cells reproductive) میں ایک جوہر پایا جاتا ہے، جسے کروموسوم (chromosome) کہتے ہیں۔ ان میں تمام موروثی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ انھی کے ذریعے بالوں کے رنگ، آنکھوں کے رنگ اور جنس کا تعیین ہوتا ہے۔ تولیدی خلیے میں کرو موسوم کے جوڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڑا جنس (sex) کے تعیین کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اسے chromosome sex کہا جاتا ہے۔ یہ جوڑا دو طرح کے کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کو X کروموسوم اور دوسرے کو Y کروموسوم کہتے ہیں۔
عورت کے بیضہ (ovum) میں سیکس کروموسوم کا جو جوڑا پایا جاتا ہے اس کے دونوں کروموسوم X نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر انھیں homogametic کہا جاتا ہے، جب کہ مرد کے نطفے (sperm) میں پایا جانے والا سیکس کروموسوم کا جوڑا دو الگ الگ نوعیت کے (X اور Y) کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں Hetrogametic کہا جاتا ہے۔
استقرار حمل (fertilization) کے وقت عورت کے بیضے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے، اسی طرح مرد کے نطفے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے اور دونوں کے اتصال سے استقرار کا عمل انجام پاتا ہے۔ عورت کے بیضہ سے نکلنے والا کروموسوم ہر حال میں X ہوتا ہے، جب کہ اس سے ملنے والا نطفہ مرد کا کروموسوم X بھی ہوسکتا ہے اور Y بھی۔ اگر عورت کے X کروموسوم سے مرد کا X کروموسوم ملتا ہے تو اس صورت میں لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر اس سے مرد کا Y کروموسوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اب عورت کے X کروموسوم سے مرد کا (X اور Y میں سے) کون سا کروموسوم ملے؟ اس میں انسانی کوشش کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا، یہ محض تقدیر الٰہی پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کروموسوم جنین (foetus) کی جنس متعین کرتا ہے اور جس سے طے ہوتا ہے کہ آیندہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، وہ مرد سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ عورت سے۔
قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو لطیف تعبیر اختیار کی ہے اس سے مذکورہ بالا سائنسی بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں‘‘۔ (البقرہ: 223) کھیتی کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس میں جو بیج ڈالا جائے اسے پروان چڑھائے اور اس کی اچھی پیداوار کرے۔ اگر کسی کھیت میں گیہوں کے بیج ڈالے جائیں گے تو اس سے گیہوں ہی پیدا ہوگا۔ اگر اس میں چنا یا جوار کے بیج ڈالے جائیں گے تو چنا یا جوار ہی اْگے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ بیج تو چنا یا جوار کا ڈالا جائے اور امید گیہوں اْگنے کی رکھی جائے اور جب گیہوں نہ اْگے تو کھیت کو قصور وار قرار دیا جائے۔ مفسرین کرام نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہی بات کہی ہے۔
علامہ زمخشریؒ (م: 538ھ) فرماتے ہیں: ’’یہ مجاز ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو کھیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان کے رحم میں ڈالے جانے والے نطفے کو، جس سے نسل انسانی کا سلسلہ چلتا ہے، بیج کے مشابے قرار دیاگیا ہے‘‘۔ (الکشاف، ص 434) امام فخر الدین رازیؒ (م: 606ھ) نے لکھا ہے: ’’اس آیت میں عورتوں کو کھیتی بہ طور تشبیہ کہا گیا ہے۔ گویا عورت زمین کے مثل ہے جس میں کاشت کی جاتی ہے، نطفہ بیج کے مثل ہے اور پیدا ہونے والا بچہ پیداوار کے مثل ہے‘‘۔ (التفسیر الکبیر، ج6، ص 75) یہی تشریح بعض دیگر مفسرین، مثلاً علامہ قرطبی (م: 671ھ) اور علامہ ابوحیان (م: 745ھ) نے بھی کی ہے۔
علامہ راغب اصفہانی (م: 502ھ) نے اس موقع پر ایک نکتے کی بات کہی ہے: کھیتی کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک حرث اور دوسرا زرع۔ دونوں الگ الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔ حرث کہتے ہیں زمین میں بیچ ڈالنے اور اسے کاشت کے لیے تیار کرنے کو۔ اور زرع کہتے ہیں زمین سے جو کچھ اْگے اس کی دیکھ بھال کرنے کو۔ سورۂ واقعہ کی آیات 63-64 میں یہ دونوں الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ یہاں سورۂ بقرہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے زرع کا لفظ نہیں، بلکہ حرث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا عورتیں کھیتی کے مثل ہیں، جس میں مرد بیج ڈالتے اور پیداوار چاہتے ہیں۔ (تفسیر الراغب الاصفہانی)
لڑکیوں کا وجود ان کے والدین کے لیے باعث خیر وبرکت ہوتا ہے۔ اس دْنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وہ زمانہ گیا جب تعلیم کو صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ لڑکے بڑے ہوں گے تو کماکر لائیں گے اور لڑکیاں بڑی ہوں گی تو خود ان پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ دْنیاوی اعتبار سے اپنے والدین کے لیے بسا اوقات لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، لڑکیوں کی پرورش وپرداخت پر ان کے والدین کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، جب کہ لڑکوں کی پرورش پر ایسی کوئی بشارت نہیں ہے۔ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک کفالت کی وہ روزِ قیامت مجھ سے اتنا قریب ہوگا۔ یہ فرماتے ہوتے آپؐ نے اپنی دو انگلیاں ملائیں‘‘۔ (مسلم) ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے پاس رہیں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنیں گی‘‘۔ (ابن ماجہ)
اللہ نے جن لوگوں کو صرف لڑکیوں سے نوازا ہو اور وہ لڑکوں کے بھی خواہش مند ہوں، انھیں اپنی بیویوں کو قصور وار ٹھہرانے کے بجاے اللہ سے دْعا کرنی چاہیے کہ وہی حقیقی عطا کرنے والا ہے۔ اولاد یا لڑکے یا لڑکیاں عطا کرنا اسی کے اختیار میں ہے۔