اسٹاک ایکسچینج کی تقریب سے وزیر اعظم کا خطاب

245

پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے 2024ء میں دنیا کی دوسری بہترین کارکردگی کی حامل اسٹاک ایکسچینج کا اعزاز حاصل کیا ہے جو اس لحاظ سے یقینا ایک اچھی اور خوش آئند خبر ہے کہ طویل عرصہ سے ہر طرف سے مایوس کن کارکردگی کی اطلاعات ہی موصول ہو رہی ہیں ایسے میں اگر کوئی پاکستانی ادارہ عالمی سطح پر بہتر کارکردگی کا اعزاز حاصل کرتا ہے تو اس سے ملک کی نیک نامی میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور عوام کے لیے بھی یہ خبر اپنے اندر اطمینان، سکون اور خوشی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس کامیابی کی خوشی میں کراچی میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بھی شرکت کی، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ معاشی ترقی کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں، ہمارا ٹیکس کا نظام کاروبار چلنے میں رکاوٹ ہے، شرح سود چھے فی صد پر لانا چاہتے ہیں مگر ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط بھی پوری کرنا ہیں، ہم آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کریں گے معیشت کی ترقی کے لیے ماہرین کی تجاویز درکار ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومتی پالیسیوں کی بدولت ملک میں معاشی استحکام آیا ہے اور اب ہمارا ہدف اس کو معاشی نمو میں تبدیل کرنا ہے۔ ’’اڑان پاکستان‘‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس سے ملک میں معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسٹاک ایکسچینج کی بہتر کارکردگی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور اب ہمیں میکرو سطح پر استحکام کو معاشی نمو میں تبدیل کرنا ہے۔ معاشی ترقی ہمارا اصل ہدف اور ایک چیلنج بھی ہے جس کے لیے سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کی تجاویز بہت اہم ہیں۔ ٹیکس وصولی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ چھے ماہ کے دوران آئی ایم ایف کا ہدف جی ڈی پی کے تناسب سے 10.5 فی صد تھا لیکن ہم نے 10.8 فی صد حاصل کر لیا اور اب مزید رفتار بڑھانے کے لیے ہمیں بینکوں سے سرمائے اور قرضوں کی ضرورت ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں ہیں اور آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ لیکن اس وقت ہمیں اہداف کو حاصل کرنا ہے۔ ہمیں بصیرت اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ ٹھوس تجاویز اور سفارشات کی ضرورت ہے کہ ہم برآمدات کی حامل نمو کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ہماری سرزمین کے نیچے کھربوں ڈالر کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔ حال ہی میں یہاں کا دورہ کرنے والے مغربی سرمایہ کاروں نے مٹی تلے خزانوں کو تلاش کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ خام مال اٹھانے کے بجائے یہاں پاکستان میں صنعتیں لگانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے نج کاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نجکاری کا عمل سو فی صد شفافیت پر مبنی ہے۔ مجھے خوشی ہو گی کہ اس حوالے سے آپ لوگ تجاویز دیں کہ اسے کس طرح مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تقریب میں ملکی معیشت کی ترقی و استحکام کے ضمن میں خیالات بلاشبہ حوصلہ افزا ہیں تاہم یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا عالمی سطح پر دوسری بہترین کارکردگی کا اعزاز باعث اطمینان و مسرت تو ضرور ہے تاہم اسٹاک ایکسچینج معاشی ترقی و استحکام کا پیمانہ نہیں ہے، اس کے لیے سب سے اہم بیرونی سہاروں سے نجات ہے جب تک ہم بیرونی اداروں کے دست نگر رہیں گے ہمیں ان کی شرائط کے سامنے بھی سر تسلیم خم کرنا پڑے گا جیسا کہ وزیر اعظم نے خود اپنی تقریر میں بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور ان سے کیے گئے وعدے بھی پورے کرنا ہیں جس کے سبب ان کے ہاتھ بہت سے معاملات میں بندھے ہوئے ہیں، اس کی عملی تعبیر بھی اسی روز کے اخبارات میں دیکھی جا سکتی ہے جس روز وزیر اعظم کی اسٹاک ایکسچینج کی تقریر اخبارات کی زینت بنی ہے، اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کا حکومت کا خواب آئی ایم ایف نے چکنا چور کر دیا ہے جس نے بجلی کے بلوں میں سیلز ٹیکس میں کمی کی حکومتی تجویز مسترد کر دی ہے، حکومت پاکستان کی وزارت توانائی نے آئی ایم ایف سے اس ضمن میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کے بلوں پر دہرے سیلز ٹیکس میں کمی کی اجازت چاہی تھی مگر آئی ایم ایف کی جانب سے جواب دیا گیا کہ قرض پروگرام کے تحت نئے ٹیکسوں میں رعایت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا یاد رہے کہ بجلی کے بلوں پر اٹھارہ فی صد کا جنرل سیلز ٹیکس دو مرتبہ عائد ہوتا ہے۔ ایک بار بل کی مجموعی رقم پر اٹھارہ فی صد ٹیکس لیا جاتا ہے اور دوسری مرتبہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی سیلز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اپنی تقریر میں اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ان کی حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کرے گی۔ وعدے یقینا پورے کیے جانا چاہئیں کیونکہ وعدہ خلافی کی اجازت ہمارا دین متین بھی نہیں دیتا تاہم وزیر اعظم کو اس مرحلہ پر یہ یاد دلانا بھی شاید بے محل نہیں ہو گا کہ کچھ وعدے انہوں نے عوام سے بھی کیے تھے جس میں بجلی کے بلوں میں کمی کا وعدہ بھی نمایاں تھا اور اس ضمن میں جماعت اسلامی کے لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ایک طویل دھرنا کے بعد ان کی کابینہ کے ارکان نے جماعت اسلامی کی قیادت سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا تھا جس میں 45 دنوں میں عوام کو بجلی کے ناقابل برداشت بلوں میں ریلیف دینے کا وعدہ بھی شامل تھا۔ یہ 45 دن پورے ہوئے اب خاصی مدت گزر چکی ہے مگر یہاں حکومت کا طرز عمل ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا‘‘ سے مختلف دکھائی نہیں دیتا!! وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ معاشی ترقی کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ ان کا یہ عزم خوش آئند ہے تاہم انہیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ معاشی ترقی کا خواب سیاسی استحکام کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا اور اس وقت اتفاق سے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کے دور چل رہے ہیں مگر حکومتی وزراء کے طرز عمل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ سنجیدہ نہیں حالانکہ ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت نہ صرف تحریک انصاف سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کرے بلکہ بہتر ہو گا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی دیگر جماعتوں کو بھی ان مذاکرات کا حصہ بنا کر وسیع تر قومی مفاہمت اور سیاسی استحکام کا راستہ تلاش کیا جائے کہ اس میں جمہوریت کی بقا اور ملک و قوم کی فلاح ہے! وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں سود کی شرح چھے فی صد تک لانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مگر ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط بھی پوری کرنا ہیں۔ گویا وزیر اعظم آئی ایم ایف کی شرائط کو اس معاملہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔ ہم زیادہ تفصیل میں جائے بغیر جناب وزیر اعظم کو صرف یہ یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت نے قوم کو سود کی لعنت سے نجات دلانے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے اور جب تک وہ یہ وعدہ پورا نہیں کرتے ملک کی معیشت سدھر سکے گی نہ دیگر مسائل سے قوم کو نجات مل سکے گی کہ سو د کو قرآن حکیم نے اللہ اور رسول کریمؐ سے جنگ قرار دیا ہے، ملک کا آئین بھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین وفاقی شریعت عدالت نے بھی اس کا حکم دے رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کے خاتمہ کے لیے کمیٹی بھی بنائی تھی اور 26 ویں آئینی ترمیم میں بھی قوم کو سود کے خاتمہ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی!!