مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے توجہ ہٹانے کے لیے ’’خیرسگالی‘‘ مہم تیز کرتے ہوئے مسلم ممالک سے تعلقات بنانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے عمل کو وسعت دیتے ہوئے ایران، شام اور عراق وغیرہ کے دورے بڑھائے جارہے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا کی سطح پر افغانستان اور مالدیپ وغیرہ کو فوکس کیا جارہا ہے۔
بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مِسری نے افغانستان کے قائم مقام وزیرِخارجہ مولوی عامر سے ملاقات کی ہے جس میں دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے سیر حاصل مشاورت کی گئی ہے۔ افغانستان روایتی طور پر بھارت کا حلیف رہا ہے اور اُس کی حکومتیں بھارت سے دوستی اور اشتراکِ عمل کو ترجیح دیتی رہی ہیں۔ افغانستان سے تعلقات بہتر بنانا بھارت کی اسٹریٹجک ڈیپتھ کے لیے بھی ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے خلاف کاؤنٹر بیلینس کے اقدامات کی مد میں یہ تعلقات بھی بہت اہم گردانے جاتے ہیں۔
مودی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو ہوا دی ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ مشکوک اور متنازع فیہ بنانے پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھرپور توجہ دی ہے تاکہ اُنہیں بھارت کے مرکزی دھارے سے الگ رکھا جائے۔ دو سال قبل مشرقِ وسطیٰ کے چند ممالک میں بھارتی قیادت کی مسلم دشمنی کے حوالے سے شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔ چند خلیجی ممالک نے بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی باشندوں کی ملازمت ختم کرنے اُنہیں وطن واپس بھیجنا شروع کردیا تھا۔
یہ سب کچھ بھارتی قیادت کے لیے انتہائی ناقابلِ قبول اور پریشان کن تھا۔ جن لوگوں کو خلیجی ممالک میں ملازمت سے برطرف کرکے وطن واپس بھیجا گیا اُنہوں نے مودی سرکار کے خلاف بات کی اور میڈیا نے اُن کے خیالات کو اُچھالا جس کے نتیجے میں مودی سرکار ہوش کے ناخن لینے پر مجبور ہوئی۔