موجودہ سیاسی صورتحال، بگاڑ اور حل کے امکانات

677

2024 کا سورج غروب اور 2025 کا سورج طلوع ہو گیا، گئی برسوں کا حساب دیکھا جائے تو مملکت پاکستان کو وجود میں آئے 77 برس ہو چکے ہیں، علامہ اقبال کے خواب کے تناظر میں بچے کھچے پاکستان کا حال دیکھا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن کیا صرف رنجیدہ ہونے اور پریشان ہونے سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے؟، آج صورتحال نہ صرف پریشان کن بلکہ پاکستان کی سالمیت کو بہت گمبھیر نوعیت کے خطرات اور کشیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔ بلوچستان آگ کے دہانے پر ہے، دہشت گردی کے واقعات ہیں کہ ایک تسلسل سے جاری اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں، کے پی میں بھی امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں، سندھ میں کچے اور پکے کے ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں، کراچی تو گویا ڈاکوؤں کے نرغے میں ہے۔ پی ٹی آئی سے منسوب 9 مئی اور اب 26 نومبر سے منسلک واقعات کے بعد مختلف سیاسی حلقوں کے حوالے سے باغیانہ خیالات اور انقلاب کے حوالے سے جو لاوا ذہنوں میں پک رہا تھا ان خیالات کو اب زبان بھی مل گئی ہے۔ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان جو نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا وہ بظاہر اپنے نظریہ سے لاتعلق ہو چکا ہے، یہ بہت خبردار کر دینے والی اور تشویش ناک صورتحال ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ بگاڑ اور پیچیدہ سیاسی صورتحال کی ذمے داری اقتدار کی جنگ میں شریک اور مصروف تمام عناصر پر عائد ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہیں۔

پی ڈی ایم نے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں عمران خان کو اقتدار سے باہر کیا، آج عمران خان جو زنداں میں ہیں اور پی ٹی آئی جو زیر عتاب ہے اس کا شاخسانہ پی ڈی ایم کے اقتدار کے علاوہ اور کیا ہے؟۔ فروری 2024 کے انتخابات کی آڑ میں اسٹیبلشمنٹ کی منشا اور جاری پالیسی کے تحت پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر عناصر کے ساتھ مل کر (ن) لیگ وزارتوں کے مزے اڑا رہی ہے اور اسی کا ایجنڈہ آگے بڑھانے کی اجرت کے عوض حکومتی ذمے داریوں پر بِراجمان ہے۔ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے متعلق بھی یہی خبریں تھیں کہ وہ بھی اسی طرح اقتدار کی راہداریوں سے متعارف کرائی گئی تھے۔ اسٹیبلشمنٹ چہار اطراف سے عوامی الزامات کی زد میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان کیوں اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر چل رہے ہیں؟، برسوں سے یہی بات مشاہدہ کی جا رہی ہے، کبھی کسی سیاسی رہنما اور کبھی کسی سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل رہتی ہے، (ن) لیگی لیڈروں کے ٹی وی چینلز پر چہرہ کا اطمینان اور پی ٹی آئی پر 9مئی، 26 نومبر اور اب مذاکرات کے حوالے سے تنقید کا بے باکانہ اور آزادانہ اور کبھی تمسخرانہ انداز بہت کچھ غمازی کر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال اور چپقلش کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے کچھ سپورٹرز کا رویہ بھی ناراضی سے بغاوت کی حدود تک جا پہنچا ہے، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ایک ایسی پارٹی جس کا ووٹ بینک کئی ملین پر محیط ہے اور ان کے لیڈر کی مقبولیت بھی ہے کیا جبر اور زور زبردستی سے پاکستان جیسے ملک میں کسی پارٹی کی مقبولیت کو کم کیا جا سکتا ہے،کسی مقبول لیڈر کو نامقبول بنایا جا سکتا ہے؟

یہ روز روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ آج پی ٹی آئی زیادتی کا شکار ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی مزاحمت اور عوامی احتجاج جس شد و مد کے ساتھ کرنے کی ضرورت تھی ، خاص کر 26 نومبر سے جڑے اتنے بڑے سانحہ کے بعد ملکی سطح پر بڑے پیمانے پر رد عمل کی ضرورت تھی لیکن بوجہ وہ غیر موثر احتجاج، ٹی وی ٹاک شوز، پریس کانفرنسوں پر اکتفا اور مولانا فضل الرحمن

سے توقعات وابستہ رکھنے کے علاوہ کوئی بھونچال نہ لا پائے۔ اقتدار سے علٰیحدگی کے بعد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے لیے زیادہ تر انہوں نے بیرون ملک حکمت عملی پر اکتفا کیا چاہے وہ میڈیا یا اپنے حمایتی بیرون ملک مقیم صحافی ہوں یا امریکا میں لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنا ہو یا امریکی سینیٹرز سے خط لکھوانا ہو یا اب براہ راست نئی آنے والی امریکی حکومت کی آشیر باد حاصل کرنا اور اس جیسے اقدامات۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت ہو یا نواز شریف کی امریکا یاترا میں کارگل کے حوالے سے ان کا کردار یا اب حال ہی میں پی ٹی آئی سے راہ و رسم، امریکا نے خطہ میں اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی ہمیشہ معاملات طے کیے اور فیصلے کیے، اب بھی اس کی ترجیحات میں پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہے جو ان کے لیے زیادہ اچھا ’’گڈ بوا‘‘ ہو۔ دیکھیں پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی میں کون امریکی توقعات اور معیار پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے گزشتہ دہائیوں کے فوجی اور سول حکمرانوں کے عروج و زوال کی داستان بہت کچھ غمازی کرتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشماتی لیڈر کے طور پر گزرے ہیں، انہوں نے عوام کو روٹی کپڑے اور مکان کا پر فریب نعرہ دیا لیکن ہوا کیا، عوام کو روٹی کپڑا مل سکا اور نہ مکان، نتیجے کے طور سے اکثریتی عوام نے پیپلز پارٹی کو کلی مسترد کر دیا۔ 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے پی پی نے قومی اسمبلی کی جس تعداد میں نشستیں حاصل کی تھیں ان نتائج کو عوام میں تسلیم نہیں کیا گیا نتیجے میں طویل عوامی تحریک چلی اور پھر بھٹو کا اصل فسطائی چہرہ لوگوں کے سامنے آیا، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا وہیں بھٹو نے ریاستی مشنری کے استعمال سے درندگی اور فسطائیت کا مظاہرہ کیا اور لا تعداد بے گناہ اپنی جان سے گئے۔

(ن) لیگ جو شریفوں کے نرغے میں ہے بہت خوبصورتی اور کوشش کے باوجود موروثی جماعت کی چھاپ سے علٰیحدہ نہیں ہو سکی اس کا بھی ایک فسطائی اور ظالمانہ اور وحشیانہ حال کے ساتھ ماضی بھی ہے۔ لاہور میں واجپائی کی آمد پر پرامن احتجاج کرنے پر جماعت اسلامی کی صف اول کی قیادت (مرحومین) قاضی حسین احمد اور سید منور حسن سمیت ان کے سیکڑوں کارکنان کو ظلم اور درندگی کا نشانہ بنانا ہو یا لاہور ہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں علامہ طاہر قادری کی پارٹی کے کئی افراد بشمول خواتین کا بے دردی سے قتل، اس پس منظر میں 26 نومبر سے منسلک واقعات میں پی ٹی آئی کے ساتھ جو ظلم و درندگی کا مظاہرہ کیا گیا یہ (ن) لیگ کی حکومت کا کوئی نیا وتیرہ نہیں ہے۔

پنجاب جو کبھی بھٹو پر جان نچھاور اور ووٹوں سے لاد دیا کرتا تھا اس نے بھٹو کے بعد نواز شریف کو اپنے سر پر بٹھایا، (ن) لیگ نے کشکول توڑنے، ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، آصف زرداری جن کی شہرت بے نظیر کے دور میں ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کے نام سے تھی ان کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر ملک کی دولت نکالنے، ملک کو ایشیاء ٹائیگر بنانے، آؤ بدلیں پاکستان، قرض اتارو ملک سنوارو جیسے دلکش نعرے دیے، لیکن ہوا کیا، اس کی ہمارے شہر و گاؤں کی خستہ حالی، عوام کی زبوں حالی، صحت اور تعلیم کی بد حالی، مہنگی بجلی اور پٹرول کی قیمتیں اپنا حال کھول کھول کر بیان کر رہی ہے۔ (جاری ہے)
2018 کے انتخابات میں عمران خان نے تبدیلی، کرپشن ختم کرنے، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے، کشکول توڑنے، پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں، گرین پاسپورٹ کی عزت، پاکستان میں غیر ملکیوں کی روزگار کی تلاش میں آمد جیسی سحر انگیز باتیں نعرے اور وعدے کیے، گو کہ پی ٹی آئی کو ان کا دور حکمرانی مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اقتدار کے پونے چار سالہ دور میں وقت کے دھارے نے کوئی قدم بھی ان کے عوام سے کیے وعدوں اور دعوؤں کی طرف بڑھتے نہیں دیکھا۔ پی ٹی آئی نے ریاست مدینہ کے دعوے بھی کیے، لیکن اس جانب کوئی عملی اقدام نظر نہیں آیا، ٹیلی وژن چینل اور میڈیا حسب سابق عریانی اور فحاشی کے ابلاغ کے مراکز بنے رہے۔

جنرل ضیا کے 90 دن میں الیکشن کرانے اور جنرل مشرف کے وردی اتارنے کے وعدوں کی بے توقیری خود ان ہی کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں (ن) لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی اقتدار کی بھول بھلیوں میں ایسے گم ہوئیں کہ الیکشن سے قبل کیے گئے دعوے وعدے اور باتیں سب فراموش کر بیٹھے، غربت کے مارے اور تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم عوام نہ جانے کیوں اب بھی اپنے اپنے بتوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔

بھتوں اور بوری بند لاشوں کی سیاست کی موجد ایم کیو ایم جنہیں ماضی میں عمران خان نفیس لوگوں کا لقب دے چکے ہیں اور حال ہی میں ایم کیو ایم کے سندھ کے گورنر کامران ٹسوری جنہیں مفتی تقی عثمانی نے سیدنا عمر فاروق اعظم کی روایت کو زندہ کرنے کے مماثل قرار دیا، آج وہی ایم کیو ایم کہاں اور کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ تین کروڑ سے زائد کراچی کی آبادی کے تناظر میں زمینی حقائق کے مطابق بمشکل لاکھ سوا لاکھ ووٹ لینے والی ایم کیو ایم کو 17 قومی اسمبلی کی بخشی سیٹوں کی بات ہو یا فیصل واوڈا، محسن نقوی اور انوار الحق کاکڑ جیسے سینیٹرز کی مثلث، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو ہم دوسرے عوامل بشمول میڈیا اور اجرت پر مامور صحافیوں کو کیوں فراموش کر جاتے ہیں چاہے وہ کسی سیاسی پارٹی کے ’’پے رول‘‘ پر ہوں یا مقتدر طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کی ’’ترجمانی‘‘ کے فرائض کی انجام دہی پر مامور ہوں۔

پاکستان میں سردست اصل جنگ اقتدار کی ہے۔ بظاہر ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت رویوں کی حامل لیکن جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن اور آئی ایم ایف سے معاہدوں جیسے اہم ترین اشوز پر حکومت اور اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں (ن) لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی پارلیمینٹ کے اندر اور باہر ایک پیج پر اور ایک ہی موقف کی سو فی صد حامی رہیں، اگر آئی ایم ایف کی غلامی میں پی پی اور (ن) لیگ نے ملکی معیشت کو تباہ حال کیا اور اسی کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کا طوفان، بجلی کے بھاری بلوں، ٹیکسیوں کی بھرمار اور مہنگائی ان سب نے عوام کی کمر توڑ رکھی تو آئی ایم ایف ہی کی غلامی قبول کرنے والی پی ٹی آئی کیسے اس ملک کو معاشی مسائل کی دلدل اور مہنگائی کے عفریت سے نکال پائے گی؟۔ اہم اقتصادی اور معاشی مسائل کے ساتھ پاکستان کا مسئلہ نظریاتی بھی ہے، سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا، وزارتوں سے اداروں اور محکموں تک ہر جگہ سیکولر، لبرل، قادیانی اور مغربی اقدار کے دلدادہ اور غلامانہ ذہنیت کے لوگ بِراجمان ہیں اور ان سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے کہ پاکستان سب کچھ بن جائے لیکن ایک فلاحی اسلامی ریاست جو اس کا مقصد وجود ہے کے سفر کی سمت نہ اختیار کر سکے اور ایسی کوشش کرنے والی سیاسی و دینی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

پاکستان میں عوامی امنگوں کے مطابق حکومتوں کی تبدیلی کا ذریعہ صرف عام انتخابات ہیں، لیکن اگر انتخابات ڈھونگ ہوں جیسا کہ فروری 2024 میں اربوں روپے لٹا کر ڈراما رچایا گیا تو موجودہ اور پیچیدہ صورتحال میں پاکستان میں غیر جانبدار صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد بعید از قیاس ہے جب تک فروری 2024 کے انتخابات میں فارم 47 کے ذریعہ بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں رد و بدل اور کراچی میں پی پی کے دھاندلی مئیر کے الیکشن کی تحقیقات اور ذمے داران کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا اور نتائج کے رد وبدل کے ذریعہ اسمبلی میں آنے والے افراد کو تاحیات نا اہل قرار نہیں دیا جاتا کوئی بھی انتخاب معتبر اور قابل قبول نہیں ہوگا۔ گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی ہی سب سے زیادہ متاثر فریق ہے، فارم 47 کے ذریعہ اس سے حق حکمرانی چھینا گیا ہے لہٰذا اسے ہی آگے بڑھ کر اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ایک پر امن تحریک شروع کرنی چاہیے تھی جو کہ نہ ہو سکا، گو کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہت چکا ہے لیکن اب بھی اگر پی ٹی آئی کم سے کم نکاتی ایجنڈے پر متاثرہ جماعتوں کو متحد کرے اور ’’لیڈ‘‘ کرے تو عوام کا ایک بپھرا ہوا سمندر فارم 47 کی متاثرہ جماعتوں کی پشت پر ہوگا جس کے مطالبات نظر انداز کرنا نہ کسی اسٹیبلشمنٹ کے بس میں ہوگا نہ کوئی حکمران ٹھیر سکے گا، آخر ماضی قریب میں بشار الا اسد اور شیخ حسینہ واجد کا حشر اور عبرت ناک انجام کس کے حافظے سے محو ہوگا؟

اہل وطن سوچیں اور خود فیصلہ کریں کہ اب تک پی پی، (ن) لیگ، فوجی جرنیل اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نہ ملک اور نہ عوام کے حالات بدل سکے بلکہ سیکورٹی کا خطرہ بھی رہا تو پھر کون ہے جو ملک اور عوام کے حالات بدل سکتا ہے؟ مہنگائی کا خاتمہ بجلی بلوں اور ٹیکسوں میں کمی لا سکتا ہے؟، حکومتی اخراجات میں کمی، وزیروں، ارکان اسمبلی جرنیلوں اور ججوں کی ناجائز مراعات ختم کرسکتا ہے؟، مسئلہ فلسطین، مسجد اقصیٰ اور کشمیر کی آزادی کے لیے امت مسلمہ کو یکجا اور عملی قدم کی جانب بڑھ سکتا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل مضمر ہے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی کے مصداق پاکستان کو مسائل سے نکالنے اور عوام کو خوشحال بنانے کے لیے کرپٹ عناصر سے پاک، بے داغ ماضی اور عوامی خدمت کے جذبے سے بھر پور ایک اہل اور ایک منظم جماعت اور صالحیت اور صلاحیت سے مالا مال ایک دیانتدار قیادت ہی ملک کو دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ، مسائل سے آزاد اور عوام کو خوشحال رکھ سکتی ہے۔