ہم تو بڑے خوش ہوئے دوپہر کی شادی کی دعوت ہے کوئی مسئلہ ہی نہیں سب جائیں گے! پھر اتفاق سے دوسری جگہ سے بھی دوپہر کی شادی کی دعوت آگئی بہت اچھی بات ہے لیکن پہلی دوپہر کی شادی گلشن اقبال این ای ڈی یونیورسٹی کے مد مقابل۔ ٹریفک اتنا زیادہ، موسم نہایت خوشگوار ظہر کی نماز وغیرہ پڑھ کر ڈرتے ڈرتے گئے کہ دیر نہ ہو جائے مگر جناب کیا بات ہے میرے شہر والوں کی ہمیشہ کی طرح پہلی دس پوزیشن میں ہمارا بھی شمار ہو گیا، اب مرحلہ انتظار کا تھا! لوگ خرامہ خرامہ آتے رہے غصہ بڑھاتے رہے، ہم بھی صبر آزماتے رہے۔ لوگ ایسے آرہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تقریباً تین بج گئے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اللہ اللہ کر کے ٹیبلز بھر گئیں اور پھر کھانا کھلا، گویا قسمت کھلی کہ چلو اب ان شاء اللہ گھر جا کر عصر کی نماز پڑھیں گے! مگر میں تو حیران ہوں کہ کھانا شروع ہونے کے آدھا گھنٹے بعد تک بھی ہنستے مسکراتے لوگ آتے گئے اور کھانے میں مسکراتے مسکراتے شریک ہو گئے۔ میزبان خاتون بہت زیادہ خوش اور شکر ادا کر رہی تھیں کہ ماشاء اللہ جن کو بلایا تھا سب آگئے۔ دولہے کو میں نے چار پانچ سال بعد دیکھا تھا جو ماشاء اللہ بہت ہی سنجیدہ کامیاب شخصیت بن کر بیرون ملک سے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں کو صحت و تندرستی اور ایمان والا اٹھائے۔ آمین اور ہمارا ملک اسی طرح ترقی کرے۔ بچوں کی کامیابی دراصل اس ملک کی کامیابی ہے اللہ پاک ان چراغوں کو پوری دنیا میں روشن رکھے(آمین)۔
بہرحال جب ہم رخصت ہونے لگے تو عصر کی اذان ہو چکی تھی۔ ہم نے اوبر (گاڑی) منگوائی۔ اس میں سوار ہو کر مغرب سے آدھا گھنٹہ پہلے گھر پہنچ گئے مگر سات بیٹھی بہن اور بہنوئی کو اپنے گھر پہنچنے میں مغرب ہو گئی۔ وہاں پر بھی اسی چکر میں لوگوں کی نمازیں نکلیں جن کا اکثر لوگوں کو افسوس رہا۔
دراصل ہمارے ہاں ٹریفک وہ بھی جام اور ہر طرف ٹریفک کا مسئلہ مزید بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہماری توقع کے مطابق ہمیں چار بجے تک گھر پہنچ جانا چاہیے تھا۔ مگر ساڑھے پانچ اور چھے بلکہ بعض کو توسات تک بج گئے۔ سنا کہ رخصتی بھی فوراً ہو گئی تھی مگر یقینا دوپہر کی شادی کی رخصتی گھر پہنچنے تک رات میں بدل گئی۔ اس طرح ایک مرتبہ نہیں ہوا اور اعلیٰ انتظامات اور میزبانوں کی حتی الامکان کوششوں کے باوجود تقریباً ڈھائی بجے بارات آگئی۔ مگر یہاں بھی دستور کے مطابق لیٹ لطیف مہمانان گرامی کی وجہ سے کھانے میں تھوڑی تاخیر رہی مگر اس دن ٹریفک جگہ جگہ سے گمبھیر رہی اور لوگ کافی لیٹ ہوتے رہے۔ برسوں کے بچھڑے دور دراز ممالک کے رشتہ داروں سے مل کر بڑی ہی خوشی ہوئی جو حیران کن اس لیے بھی تھی کہ چھوٹے بچوں کو بڑا اور نو جوان اور جوان حالتوں حلیوں میں دیکھ کر بڑی خوش ہوئی۔ یقین ہی نہ آیا کہ وقت کیسے دبے پاؤں گزر گیا؟ کیا کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں؟ ساتھ ہی اپنی عمروں کے بڑھے ہوئے اور جواب دہی کے احساس نے اللہ کی تعریف اور اپنے گناہوں کی توبہ استغفار شکر گزاری کے جذبات نے متفکر کیا، تو دوسری طرف عزیز ترین مہربان بڑے بزرگ یعنی مرحومین کی یادوں نے بھی آنکھوں میں دیے جلائے، جو دلوں کو مغموم کیے جاتے تھے دعا کی کہ اللہ تو ہی بہتر کرتا ہے ان کی بہترین مغفرت فرما اور ہمیں اوران بچوں کی خوشیوں کو سلامت رکھ۔ صحت تندرستی اور ایمان کی بہترین حالت میں رکھنا اور ہمیں خوشیوں میں ملانا (آمین)۔ دونوں جہاں کی کامیابی عطا فرمانا (آمین ثمہ آمین)۔ برسوں بعد دوپہر کی شادی جو ہم نے کورونا سے پہلے شرکت کی تھی اس کی یاد تازہ کر دی جو گرمیوں میں ہوئی تھی۔ مگر گھڑی وہی وقت اب بھی بتا رہی تھی مگر کیونکہ گرمیوں کے دن تھے اس لیے برا نہ لگا نمازیں ضائع نہیں ہوئیں دسمبر میں گھڑیاں اپنا کام بالکل درست کر رہی تھیں ہمارے انتظامی امور متاثر تھے اور ہم وقت پراپنا کام مکمل نہ کر پائے۔ لہٰذا سبق یہ ملا کہ وقت کی پابندی ضروری ہے ہر عمل کے لیے۔ کتنے خوبصورت اوقات کار ہیں نماز کے جو ہمیں ہر وقت پابندی وقت کا عظیم درس دے کر تقریبات کو ہی نہیں زندگیوں کو کامیاب بنانا سکھاتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہماری یہ دیر سے آنے کی لاپروائیاں ختم ہو جائیں اور ہم وقت کی اہمیت کو اپنی زندگیوں میں اپنائیں کہ ان کو اپنانا ہی زندگی کی سدھار اور بہار ہے۔ دوپہر کی شادی میں ٹریفک کے خلل کا ایک سبب بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز ہیں جن کے ارد گرد اتنی ٹریفک ہوتی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ٹریفک کی وجہ بھی دراصل یہی ہے کہ ’’دوپہر کی شادی نے ٹریفک رکوا دی‘‘۔